پیپلز پارٹی کیا کیا کر سکتی ہے؟


منگل کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پی ڈی ایم کے استعفوں کے معاملے پر آصف علی زرداری نے جو خطاب کیا ، اس نے تو معاملے کا رخ کسی اور ہی طرف پھیر دیا۔

جب سابق صدر آصف زرداری نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ میاں صاحب اگر استعفے دینے ہیں تو آپ واپس آئیں ، پھر اکٹھے ہی جیل جاتے ہیں ۔ زرداری کے اس جملے نے تہلکہ مچا دیا۔ اس خبر کا میڈیا پر آنا تھا کہ حکومتی وزراء اور حکومتی حامی صحافیوں اور میڈیا چینلز نے کہا جی بس آج پی ڈی ایم ٹوٹ گئی مگر پیپلز پارٹی نے مشاورت کے لئے وقت مانگ کر ان افراد کی خوشی کو کسی حد تک ماند کر دیا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم جو 10 جماعتوں کا اتحاد ہے۔ اس میں 9 پارٹیاں (جن میں مسلم لیگ نواز جو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس سمیت ) اسمبلیوں سے استعفی دینے کی حامی ہیں۔ اصولی طور پر تو پیپلز پارٹی کو باقی 9 جماعتوں کے ساتھ چلنا چاہیے مگر اس معاملے پر پیپلز پارٹی نہیں مان رہی۔ پھر جب مولانا صاحب پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے تو اس کے بعد سے پیپلز پارٹی کی تھوڑی بہت مقبولیت جو بڑھ رہی تھی ، اس کو دھچکا تو بہرحال لگا ہے۔

پیپلز پارٹی ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت تھی جس نے 20 ستمبر 2020 کو اے پی سی کا انعقاد کیا تھا اور پیپلز پارٹی کی بدولت ہی پی ڈی ایم وجود میں آئی۔ اگر وہی جماعت جس کی بدولت پی ڈی ایم معرض وجود میں آئی، اس اتحاد سے الگ ہو جاتی ہے تو عجیب و غریب صورت حال تو پیدا ہو گی ہی۔

اب ہم دو ممکنات پر بات کریں گے۔

پہلا امکان کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی یہ فیصلہ کرے کہ وہ استعفی نہیں دیں گے اور اس کے باوجود باقی 9 جماعتیں اس بات پر ڈٹ جائیں کہ وہ استعفی دیں گے اور وہ پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکال دیں تو پھر کیا ہوگا؟ قوی امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جو اس وقت حکومتی اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے وہ سندھ پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں ان کی حکومت نہیں ہے اور وہ پی ڈی ایم بننے سے پہلے بار بار گورنر راج لگانے کا عندیہ دے رہے تھے ،وہ پھر سے سندھ فتح کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ دوسری بات جو قومی اسمبلی میں حفیظ شیخ کو شکست ہوئی ، بظاہر ہر طرح کے جمہوری اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود ، اس کا بھی غصہ یقیناً ہے اور ہو سکتا ہے کہ نیب جو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو نہیں بلا رہا تھا نہ کوئی اور گرفتاری ہو رہی تھی ، وہ سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

پیپلز پارٹی 2013 کے بعد سے عملاً ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی تھی اور وہ ایک ایسا موقع چاہتی تھی جس سے وہ قومی جماعت کے طور پر ابھرے۔ پی ڈی ایم کی بدولت اور ضمنی انتخاب کے فیصلے سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور خاص طور پر پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کو سراہا جا رہا تھا۔

پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت چاہتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی حاصل کرے۔ اس وقت اس کے پاس دو ہی آپشن ہیں مرکز میں حکومت کرنے کے۔ ایک یہ کہ اگر وہ اسٹبلیشمنٹ سے مذاکرات کر کے ان سے معاملہ سیٹ کر کے پی ڈی ایم کو عدم اعتماد کے لئے منا لیتی ہے اور عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس بنیاد پر پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کا عہدہ لے کر دوبارہ مرکز میں حکومت بنا سکتی ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی واپسی ممکن بنائے۔ پیپلز پارٹی اسی لئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پنجاب میں دوبارہ انٹری لینا چاہ رہی ہے۔ پنجاب میں وہ اس لئے عدم اعتماد لانا چاہتی ہے تاکہ وہ دوبارہ پنجاب میں داخل ہو سکے اور بھلے وہ  پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا کر ان کے اتحادی کے طور پر ہی آئیں لیکن وہ پنجاب میں قوت بہرحال چاہتے ہیں۔ 1977 کے بعد سے پیپلز پارٹی تخت لاہور حاصل نہیں کر سکی ہے۔

انہیں پتا ہے کہ وہ پنجاب میں داخل ہو کر اسلام آباد حاصل کر لیں گے۔ مگر مسلم لیگ نون کو عثمان بزدار اس ماحول میں سوٹ کرتے ہیں کیونکہ پنجاب مسلم لیگ نون کا سیاسی قلعہ ہے اور ’شاندار پرفارمنس‘ جو وسیم اکرم پلس نے دی ہے ، اس کے بعد وہ پنجاب میں تین چوتھائی اکثریت سے زیادہ نشستیں لے کر اپنی حکومت بنا لے گی جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو۔

اب دوسرا امکان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو بچانے کی خاطر استعفے دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ اگر پیپلز پارٹی پہلے مرحلے میں باقی پی ڈی ایم کی جماعتوں سے مل کر قومی اسمبلی سے استعفے دے دے  تو 160 نشستوں پر انتخاب کروانا مشکل ہو گا مگر اگر ریاست یہ فیصلہ کرے کہ ہم انتخابات کروائیں گے اور پی ڈی ایم بائیکاٹ کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ پھر ہو گا یہ کہ اسٹبلیشمنٹ کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی ، پھر تو ہر طرف حکومت ہو گی اور وہ تو آرام سے آئین میں ترمیم کر کے 18 ویں ترمیم ختم کر کے، این ایف سی ختم کر کے اور صدارتی نظام نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

ایک متبادل سیاسی قیادت سامنے آ جائے گی اور پیپلز پارٹی کو 1985 کا تجربہ ہے اور اسی وجہ سے میاں نواز شریف پاکستان کے سیاسی افق پر متبادل لیڈرشپ کے طور پر نمودار ہوئے اور تب سے پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت بنا نہیں پائی ہے۔ اور اگر وہ سندھ حکومت بھی قربان کر دیتے ہیں جو ان کا سیاسی قلعہ ہے تو وہ بالکل آؤٹ ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ سندھ میں مسلسل تیسری بار حکومت جو انہوں نے بنائی اور ممکن ہے کہ 2023 میں چوتھی بار کامیاب ہو کر حکومت بنائیں ، وہ تو ان کے پاس سے نکل جائے گی۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی سندھ کو کھونا نہیں چاہے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر استعفے دے کر حکومت گرانی ہے تو پھر تو پی ڈی ایم کو سڑکوں کی سیاست کو بھرپور کھیلنا ہو گا۔ پھر دھرنے دینا ہوں گے۔ قومی شاہراہیں بند کرنا ہوں گی ، ریل روکنی ہو گی، پہیہ جام ہڑتال کروانی ہو گی نیز حکومتی امور متاثر کرنے ہوں گے اور آپ اس طرح کے حالات پیدا کروا دیں کہ آپ ضمنی انتخابات نہ ہونے دیں پھر ہو سکتا ہے کہ استعفی دے کر آپ حکومت کو گرا پائیں ورنہ ریاست کے پاس طاقت بھی ہے کہ وہ ہر حال میں ضمنی انتخاب کروائے۔

اس وقت ملک میں میاں نواز شریف کا بیانیہ چل رہا ہے۔ انہوں نے گجرانوالہ میں جو تقریر کی تھی ، اس کو ملک میں خاص طور پر پنجاب میں بے حد پذیرائی ملی اور پنجاب میں بھی جن باتوں کے کچھ دہائیاں پہلے تک ہونے کا تصور ہی کیا جاسکتا تھا ، وہ آج گلی کوچوں میں ہو رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف سمیت پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو اس نظام میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ اس کے حصہ دار نہیں ، اس لئے وہ نظام کو گرانا چاہتے ہیں مگر پیپلز پارٹی کا اس نظام سے مفاد وابستہ ہے۔ اگر پی ڈی ایم کی باقی 9 جماعتیں متفق ہو کر پیپلز پارٹی کو اتحاد سے الگ کر کے بھی مزاحمت کرتی ہیں تو اس کا اثر ضرور ہو گا مگر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مزاحمت کرنا اس کو اور زیادہ دوام بخشے گا۔

پیپلز پارٹی کو مقتدر قوتوں کی جانب سے دھوکے مل چکے ہیں۔اگر وہ ایک بار پھر مفاہمت کر کے اقتدار لیں گے تو ان کا انجام ان ماضی سے مختلف نہ ہو گا۔ اب یہ پیپلز پارٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ پی ڈی ایم کو بچانا ہے یا ہائبرڈ نظام کو کیونکہ عدم اعتماد مسلم لیگ نون کے بغیر اور باقی اپوزیشن جماعتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عوامی جذبات کو مقدم رکھنا چاہتی ہے یا اس سسٹم کو بچانا چاہتی ہے جس کا مقدر زمین بوس ہو جانا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments