پاکستان میں سمارٹ فونز کی تیاری: کیا اس سے قیمت پر کوئی فرق پڑے گا؟


پاکستانی سمارٹ فونز

’میرے گھر پر بچے دو ہیں مگر موبائل فون صرف ایک تھا۔ لاک ڈاؤن میں آن لائن کلاسز کے دوران مجھے ایک اور فون خریدنا پڑا تاکہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔‘

لاہور کے ایک اوبر ڈرائیور شیخ خالد کے یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک میں سمارٹ فونز اور ٹیکنالوجی کی ضروریات کتنی بڑھ گئی ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق جنوری 2021 تک نو کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد تھری جی یا فور جی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور ملک میں 17 کروڑ 80 لاکھ کے قریب موبائل فون صارف ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سمارٹ فونز کی کھپت بہت زیادہ ہے لیکن انھیں بڑے پیمانے پر درآمد کرنا پڑتا ہے کیونکہ ملک میں سمارٹ فون کی تیاری کے لیے کوئی صنعت موجود نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ای بائیک:’نہ دھواں نہ شور اور خرچ بھی 500 روپے ماہانہ‘

الیکٹرک رکشہ: ’قیمت زیادہ ہو گی مگر سواری سستی‘

مہنگی ڈگری کے بغیر بھی آن لائن کمائی ممکن!

لیکن اب متعدد کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے مقامی سطح پر تیار ہونے والے موبائل فونز پر ’ود ہولڈنگ ٹیکس‘ میں چھوٹ کے پیش نظر اسمبلی پلانٹس قائم کیے گئے ہیں۔

یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ درآمد شدہ فونز کے مقابلے یہاں تیار کردہ فونز کی قیمتیں کم ہوں گی اور اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

پاکستان میں بننے سے فون کی قیمت کم ہو گی؟

لمز یونیورسٹی کے پروفیسر زرتاش افضل عزمی پاکستان میں آئی ٹی اور ٹیلی کام کے فروغ کے لیے قائم ٹاسک فورس کا حصہ ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ کے بعد مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فونز درآمد شدہ فونز کے مقابلے سستے ہو سکتے ہیں۔

سمارٹ فونز

پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سام سنگ اور ایپل کے موبائل فونز کی قیمتیں مسلسل بڑھنے کی بدولت صارفین کا رجحان سستی چینی سمارٹ فون کمپنیوں جیسے ویوو، اوپو اور شاؤمی کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ہواوے پر امریکی پابندیوں کے بعد اس کی فروخت متاثر ہوئی ہے۔

عالمی سطح پر چین کے بعد انڈیا دوسری سب سے بڑی سمارٹ فون مارکیٹ ہے جہاں ایسے سستے موبائل فونز تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہاں سام سنگ، شاؤمی، اوپو، ویوو اور ون پلس کئی برسوں سے مقامی سطح پر سمارٹ فون اسمبلی انجام دے رہے ہیں۔ اور تو اور ایپل کا نیا آئی فون 12 بھی انڈیا میں تیار ہونے جا رہا ہے۔

مظفر پراچہ نے حال ہی میں اپنی کمپنی ایئرلنک کمیونیکیشن کے ذریعے پاکستان میں چینی سمارٹ فونز کی اسمبلی شروع کی جس میں آئی ٹیل، ٹیکنو، ٹی سی ایل اور الکیٹل شامل ہیں۔

’پاکستان جہاز بنا سکتا ہے تو فون کیوں نہیں بنا سکتا؟ یہ تو صرف حکومت کی پالیسی تھی اور میڈ اِن پاکستان کا وژن۔۔۔ ہم اب یہاں فور جی سمارٹ فونز اسمبل کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سمارٹ فونز کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک سام سنگ نے بھی پاکستان میں اپنے فونز اسمبل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس سلسلے میں ان کی کمپنی سے بات چیت بھی کی ہے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔

سام سنگ

موبائل جینڈر گیپ رپورٹ 2020 کے مطابق پاکستان میں 37 فیصد مرد اور 20 فیصد خواتین سمارٹ فون صارفین ہیں جبکہ کئی لوگوں کے پاس موبائل فون اس لیے نہیں کیونکہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتے، یا قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ خرید نہیں سکتے۔

مظفر پراچہ کے مطابق ’کسی بھی ملک میں سب سے پہلے اسمبلی شروع ہوتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک (انڈیا اور چین) میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ چین کے مقابلے اب پاکستان میں لیبر سستی ہے اور چین اپنی صنعت دوسرے ممالک میں منتقل کر رہا ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں جو سمارٹ فون 10 ہزار روپے کا مل رہا ہے، وہ حکومت کی جانب سے مقامی طور پر تیار کردہ فونز پر ٹیکس میں چھوٹ کے بعد 7500 روپے کا ملنا چاہیے۔

’آنے والے وقتوں میں جیسے جیسے مقامی سطح پر سمارٹ فونز کی تیاری بڑھتی ہے اور پوری دنیا میں الیکٹرونکس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے، پاکستان میں بھی ان کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔۔۔ قیمت میں کمی 40 سے 50 فیصد بھی آسکتی ہے۔‘

پاکستانی سمارٹ فونز

’چارجر، ہینڈز فری اور بیٹری تو پاکستان میں بن ہی سکتے ہے‘

زرتاش عزمی نے کہا کہ سمارٹ فونز کی تیاری کے موجودہ مرحلے میں بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ صرف پرزے جڑ رہے ہیں مگر یہ بات اس سے بڑھ کر ہے۔

’اس طرح کی کوششوں سے اس سے منسلک صنعت ترقی پاتی ہے۔۔۔ کچھ برسوں بعد شاید ان موبائل فونز کی ایکسیسیریز پاکستان میں بننے لگیں گی جن میں چارجر، ہینڈز فریز اور بیٹریز کی صنعت سے پاکستان میں مواقع بڑھیں گے اور ہنر پیدا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نئے پالیسی فریم ورک کے تحت آئندہ برسوں میں ان نئی کمپنیوں کے لیے لازم ہو گا کہ اسمبل ہونے والے فونز میں سے کم از کم کچھ کی ایکسیسیریز مقامی سطح پر تیار کریں۔ ملک میں چینی موبائل فونز کی اسمبلی کے بعد ان کمپنیوں کی ٹیسٹنگ اور آر اینڈ ڈی لیبارٹریز بن سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی نئے ملک میں ابتدائی مراحل میں فونز کی اسمبلی اور پیکجنگ کی جاتی ہے۔

’اس کے بعد سب سے آسان پرزے بننا شروع ہو سکتے ہیں، جیسے پلاسٹک کے پارٹس کی تیاری۔ پھر چارجر اور ہینڈز فری بنائی جا سکتی ہیں، یہ مشکل نہیں۔‘

مظفر پراچہ اور زرتاش عزمی اس بات پر متفق ہیں کہ سرکٹ بورڈز (مدر بورڈ) یا سکرین بنانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے لیکن اس لیے بھی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔

سمارٹ فونز

زرتاش عزمی نے اس خیال کو رد کیا ہے کہ پاکستان میں ہنرمند انجینیئرز نہیں۔ ’میں آپ کو اپنے ایک طالبعلم کی مثال دے سکتا ہوں جو پاکستان میں یہاں الیکٹریکل انجینیئرنگ پڑھ رہا تھا مگر اسے موسیقی کا شوق تھا اور وہ ساؤنڈ انجینیئرنگ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ یہاں سے پڑھنے کے بعد اس نے امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں بوز کمپنی میں کام کرنے لگا جو دنیا بھر میں اپنے خاص ہیڈ فونز کے لیے مشہور ہے۔‘

’اس طرح کے بندے کے لیے پاکستان میں کوئی مواقع نہیں تھے لیکن اگر یہ صنعت یہاں بنتی ہے تو ایسے نوجوان پاکستان میں اپنے کیریئر بنا سکیں گے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں الیکٹرونکس کی مقامی صنعت نہ ہونے کی وجہ سے کئی ہنر مند اور باصلاحیت نوجوان بیرون ملک کا رُخ کرتے ہیں۔

لیکن اب اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستانیوں کے پاس ایک اچھا موقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp