کیا آپ اپنے دوستوں کو غلط مشورے دیتے ہیں؟



انسانوں کی طرح لفظوں کی بھی اپنی جداگانہ شناخت اور شخصیت ہوتی ہے۔
بعض الفاظ میٹھے ہوئے ہیں بعض ترش اور بعض کڑوے۔
بعض الفاظ دل پر زخم لگاتے ہیں بعض مرہم۔
بعض الفاظ ذہن کو کچوکے لگاتے ہیں بعض اسے پرسکون بنا دیتے ہیں۔
بعض لوگ اپنے دوستوں کو اپنے الفاظ سے سکھی کر دیتے اور بعض دکھی۔

میری ایک مریضہ عالیہ چار سال کی تھراپی کے بعد صحت مند ہو گئیں تو ایک دن مجھ سے کہنے لگیں کہ میں آپ کے کالم ’ہم سب‘ پر پڑھتی رہتی ہوں اور ان سے بہت کچھ سیکھتی ہوں۔ آپ نے اپنے کئی مریضوں اور مریضاؤں کے بارے میں کالم لکھے ہیں۔ ایک کالم میرے بارے میں بھی لکھ دیں تاکہ لوگ میری کہانی سے کچھ سیکھیں۔ میں نے کہا آپ اپنا مسئلہ لکھ کر لائیں میں اسے اپنے کالم میں شامل کر لوں گا۔ اگلے ہفتے وہ مندرجہ ذیل کہانی لکھ کر لائیں۔

’اس واقعہ کو کئی سال بیت گئے ہیں لیکن اب بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے سراپے میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

ایک دن میری ہمسائی نے رات دس بجے مجھے فون کیا اور کہا کہ میرے گھر ابھی اسی وقت آ جاؤ۔
میں نے کہا کل بتا دینا۔ میں شب خوابی کے کپڑے پہن کر اور گھر کی بتیاں بجھا کر سونے لگی ہوں۔

کہنے لگی کل تک انتظار نہیں ہو سکتا۔ بہت اہم بات ہے۔ ورنہ دیر ہو جائے گی اور پھر تم پچھتاؤ گی۔ تمہاری زندگی اور عزت کا معاملہ ہے۔

جب اس نے بہت اصرار کیا اور مجھے مجبور کیا تو مجھے اس کے گھر جانا پڑا۔ جب میں اپنی ہمسائی سے ملی اور پوچھا کیا بات ہے؟ تو کہنے لگی کہ تمہاری بیٹی سعدیہ کا کسی لڑکے کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔ اس پر نظر رکھو ورنہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ میں اسے اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ اگر کہیں کسی مسلمان بچے کو گناہ کرتا دیکھتی ہوں تو اس کے والدین کو خبردار کرتی ہوں۔

میری ہمسائی نے مجھ سے اس لہجے میں بات کی کہ میں نے بھی اسے اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ بنا لیا۔
جب گھر آئی تو میرے شوہر حامد نے پوچھا کہ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ ہمسائی نے بلایا؟
میں نے کہا ہمسائی کہتی ہے ہماری بیٹی سعدیہ فون پر لڑکوں سے گپیں لگاتی ہے۔
حامد نے کہا اس کے پاس تو فون ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا اس کے کمرے میں جا کر تلاشی لیتے ہیں۔
جب میں اور حامد غصے میں سعدیہ کے کمرے میں گئے تو وہ بہت گھبرائی۔
حامد نے کہا۔ ہمیں فون دے دو
سعدیہ نے کہا۔ میرے پاس فون نہیں ہے
حامد نے کہا۔ خود نکال کر دو گی یا ہم تلاشی لیں۔
چنانچہ سعدیہ نے اپنے bra میں چھپایا ہوا اپنا فون نکال کر دیا۔

حامد نے فون لے کر غصے میں اتنی زور سے زمین پر پٹخا کہ فون ٹوٹ کر چاروں طرف بکھر گیا اور سعدیہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔

ہم نے اس کے رونے کی کوئی پروا نہ کی۔
ہم نے اگلے چند ماہ سعدیہ پر بہت سختیاں کیں کیونکہ ہم دونوں غصے میں پاگل ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد میری ہمسائی نے کمیونٹی میں ہمیں بہت بدنام کیا اور بہت سی ماؤں سے کہا کہ اپنی بیٹی کو سعدیہ سے دور رکھو۔ وہ بدکردار لڑکی ہے۔

میری ہمسائی کے کہنے پر لوگ ہم سے دور رہنے لگے اور مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔

جب ہم نے اپنی بیٹی پر حد سے زیادہ سختی کی تو ایک رات گھر سے بھاگ گئی۔ جانے سے پہلے وہ ایک خط چھوڑ گئی جس میں لکھا تھا کہ ہم ظالم ماں باپ ہیں۔ سعدیہ چار مہینے گھر سے غائب رہی۔ وہ چار مہینے میرے لیے چار سال چار دہائیاں اور چار صدیاں بن کر بیتے۔

ان چار مہینوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔

اگر میری بیٹی نے کسی دوست سے فون پر بات کی تو کیا قیامت آ گئی۔ وہ دوست بھی مونٹریال میں رہتا تھا، ٹورانٹو سے پانچ گھنٹے دور۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنی ہمسائی کی باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے تھا۔ اس نے مجھے دوست بن کر غلط مشورہ دیا تھا۔

بیٹی کی جدائی میں میں بھی اداس ہو گئی اور میری بیٹی بھی ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔
چار ماہ بعد جب وہ لوٹی تو میری بیٹی مجھ سے نفرت کرتی تھی۔

آخر آپ نے میری بھی اور میری بیٹی کی بھی مدد کی۔ تھراپی سے اب ہمارا رشتہ بہت بہتر ہے۔ ہم دونوں آپ کے بہت مشکور ہیں۔

اب میں سوچتی ہوں کہ ہمیں ہر دوست اور ہر ہمسائے کی بات نہیں سننی چاہیے۔ اگر میں نے ہمسائی کی بات پر عمل نہ کیا ہوتا تو ہم اتنی اذیت سے نہ گزرتے۔

۔ ۔ ۔
جب میں نے عالیہ اور سعدیہ کی تھراپی کی تو عالیہ نے اپنی بیٹی سے معافی مانگی۔
دونوں کا رشتہ بہتر ہوا تو سعدیہ نے شادی کا فیصلہ کیا اور اس کے والدین نے اس کی رائے کا احترام کیا۔
اب عالیہ ، حامد،  سعدیہ اور اس کا شوہر جنید ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور خوش ہیں۔
۔ ۔ ۔
بعض ماہرین نفسیات تھراپی کو لفظوں سے مسیحائی کہتے ہیں۔
کیا آپ نے ایک دانشور کا قول سنا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن کئی گنا بہتر ہے؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments