جھومر سائیں اور چودھویں کا چاند


آج پھر بہت دنوں کے بعد لوگوں نے جھومر سائیں کو شام نگر کی گلیوں میں گھومتے دیکھا۔ اس مرتبہ وہ کافی مہینوں بعد اپنی جھونپڑی سے باہر نظر آیا تھا۔ لوگ تو سمجھے شاید وہ مر گیا ہے۔ لیکن جب وہ کچھ دن پہلے جنگل کی طرف اس کی جھونپڑی کے پاس گئے تو وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ اکثر آس پاس کے علاقوں میں بھی چلا جاتا تھا بلکہ لوگ بتاتے تھے کہ انہوں نے اسے دوسرے شہروں میں بھی اکثر دیکھا ہے۔ وہ زیادہ تر باہر ہی بیٹھا ہوتا تھا اور دور سے ہی نظر آ جاتا تھا۔ جنگل شروع ہونے سے پہلے خالی زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑا تھا۔ اس کے ساتھ جھومر سائیں کی جھونپڑی تھی۔ آج تک کسی نے اس کی جھونپڑی اندر سے نہیں دیکھی تھی۔ اس دن بھی کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اندر جائے اور دیکھے کہ جھومر سائیں زندہ ہے یا مر گیا۔

لوگ اسے بہت پہنچا ہوا مانتے تھے۔ باپ دادا سے اس کے بارے میں سنتے آئے تھے۔ شام نگر کا سب سے بوڑھا آدمی حضور بخش تھا۔ بقول اس کے جھومر سائیں کو وہ بچپن سے دیکھتا آ رہا ہے اور اس کا باپ اپنے بچپن سے۔ اب یہ کوئی ممکن بات تو تھی نہیں لیکن لوگ حضور بخش کی عزت کرتے تھے لہذا اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے تھے۔ اس نے اپنے بچوں کو بتایا تھا کہ جھومر سائیں کی شکل اور خد و خال میں بھی کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔

یہ بھی حقیقت تھی کہ آج تک کسی نے اس کی آواز نہیں سنی تھی۔ اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ لوگ کہتے تھے وہ پلک بھی نہیں جھپکتا تھا۔ لیکن میلوں ٹھیلوں میں وہ گاتا تھا اور زبردست ناچتا تھا۔ جو گیت یا الاپ اسے پسند ہوتا وہ ایک بار سننے کے بعد بالکل اسی آواز میں گا دیتا اور ساتھ ساتھ جھومر بھی ڈالتا۔ اسے بہت پرانے علاقائی گانے بھی یاد تھے جو نئی نسل نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔ اسی وجہ سے شاید اس کا نام جھومر سائیں پڑ گیا تھا۔ مگر وہ بولتا کبھی نہیں تھا۔

ہر چھٹے مہینے چاند کی چودہ تاریخ کو وہ کوئی خاص عبادت کرتا۔ اس کی جھونپڑی سے اتنی روشنی نکلتی کہ آسمان تک جاتی۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ اس رات سائیں کی جھونپڑی کے پاس بھی جاتا۔ ایک بار جنگل سے دو جنگلی سور نکل کر سائیں کی جھونپڑی سے نکلتی روشنی کا راز پانے اس کے قریب چلے گئے تھے۔ بعد میں لوگوں کو ان کی بھسم ہوئی لاشیں ملی تھیں۔

وہ زیادہ تر ان جگہوں پر دیکھا جاتا تھا جہاں یا تو کوئی لڑائی جھگڑا ہو رہا ہوتا یا کوئی خوشی کی تقریب۔ اسے زیادہ اشتیاق شاید لڑائی جھگڑے سے تھا۔ وہ چپ کر کے لڑنے بھڑنے والوں کو دیکھتا رہتا۔ ان کی ایک ایک حرکت پر غور کرتا۔ جب لڑائی ختم ہو جاتی تو وہ چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتا اور کسی نئے جھگڑے کی تلاش میں نکل پڑتا۔

لاگ رپورٹ نمبر 12010
یہ میری اس سلسلے کی آخری رپورٹ ہے۔

مجھے زمین کہلانے والے اس سیارے پر پانچ سو زمینی سال کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان میں سے دو سو پچاس سال میں نے زمین کے مغربی حصے پر تحقیق کی اور بقیہ سال مشرقی حصے پر۔ ہم نے یہ بہترین جگہ ڈھونڈ لی ہے۔ یہاں ہم بہت عرصہ رہ سکیں گے۔ ان لوگوں میں کچھ چیزیں اچھی اور کچھ بری ہیں۔ یہ آواز کی مختلف فریکوئینسیاں آپس میں ملا کر موسیقی نام کی چیز پیدا کرتے ہیں جو زمیں کی ہر حصے میں پسند کی جاتی ہے۔ مجھے موسیقی کی وجہ سے اپنی ریسرچ میں بہت مدد ملی ہے۔ ان میں ایک عمل ایسا پایا جاتا ہے جس کو یہ جذبات کا نام دیتے ہیں۔ اگر یہ اچھا تاثر دے تو یہ گھل مل جاتے ہیں۔ اگر برا تاثر دے تو یہ تخریب کاری پر انجام پذیر ہوتا ہے۔ فائدے کی بات یہ ہے کہ تخریب کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

میں آخر میں یہ رائے دوں گا کہ ہمیں ابھی یہاں حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم پانچ سو زمینی سال مزید انتظار کر لیں تو یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ ہمیں اپنے قیمتی ذرائع استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ جنگ چھیڑنے کے بجائے انتظار کرنا مناسب ہو گا۔ میرا وقت اور کام یہاں پورا ہو چکا۔ میں واپسی کے لیے نکل رہا ہوں۔ واپسی کا وقت زمینی تین سو پچاس سال ہے۔

جھومر سائیں نے سامنے رکھی مشین کے دو تین بٹن دبائے۔ مشین میں سے تیز روشنی نکلی جو آسمان میں پیوست ہو کر گم ہو گئی۔ وہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکل آیا۔ چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مشین اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے بیٹھ کر مشین کو زمین پر رکھا تو جنگل شروع ہونے سے پہلے خالی زمین کے ٹکڑے میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں، زمین بری طرح ہل رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے لوہے کا ایک لمبا اور چوڑا ڈبہ نمودار ہونا شروع ہو گیا۔

سائیں نے آنکھیں بند کیں، اس کے سر کے درمیان سے روشنی پھوٹی اور جلد دو حصوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گئی۔ جھومر سائیں کی کھال اتر کر زمین پر پڑی تھی اور اس میں سے نکلی تین ٹانگوں اور بڑے سر کی مخلوق اس لوہے کے ڈبے کے اندر جا رہی تھی۔ اس نے پلٹ کے ایک مرتبہ آبادی کی طرف دیکھا اور ڈبے کے اندر داخل ہو گئی۔ پانچ سو سال میں پہلی مرتبہ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ڈبہ روشنی کی رفتار سے اڑتا آسمان میں غائب ہو گیا۔

گاؤں والے اگلی صبح رات کو آئے زلزلے کی خبر لینے نکلے تو دیکھا جنگل کے سامنے زمین پھٹ چکی تھی اور پانی نکل آیا تھا جس کے ساتھ جھومر سائیں کی کھال بھی پڑی تھی۔ بڑے بوڑھوں نے فوراً کھال کو دفنا کر اس پر مقبرہ بنانے کی تیاری کرنا شروع کر دی۔

شام نگر میں اب ہر چھ مہینے بعد بابا جھومر سائیں کا میلہ لگتا ہے اور چشمے کے پانی کو لوگ تبرکاً ساتھ لے جاتے ہیں۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments