جہنم سے اللہ بچائے پر جنت؟


جہنم بارے سوچ کر تو ویسے ہی روح بھی کانپ جاتی ہے، اللہ مجھے اس سے تو حفظ و امان میں رکھے مگر جب جنت سے متعلق سوچتا ہوں تو بہت پریشاں ہو جاتا ہوں۔ ٹھیک ہے وہاں دودھ اور الکحل سے پاک شراب یعنی مشروب کی نہریں ہوں گی، حوریں اور غلمان ہوں گے مگر عبادت کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ دنیا میں تو ہم عبادت جہنم کی آگ اور عذاب سے بچنے اور جنت کے حصول کی خواہش میں کرتے ہیں۔ سارے انبیا اور پیغمبر وہیں ہوں گے تو ان کی امت کے اگر ہماری طرح اکثریت میں نہیں تو کچھ نہ کچھ ماننے والے تو جنت میں ہوں گے ہی ، اس طرح مذہب ایک ہو جائے گا یعنی مذہب کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ مذہب بھی تو ہم موت کے بعد کی زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر اختیار کرتے ہیں۔

پہلی پریشان کن بات یہ ہے کہ میں بھی اٹھارہ برس کا، میرا باپ اور میرا بیٹا بھی اٹھارہ برس کے، میرا دادا اور میرا پوتا بھی اٹھارہ برس کے، اسی طرح ماں، بیوی، بہن، بیٹی، نانی دادی اور آخر تک سب پڑ کھڑ تڑ سڑ دادے دادیاں، نانے نانیاں، اور نیچے کی طرف بیٹے پوتے سے آگے پڑ کھڑ تڑ سڑ پوتے پوتیاں، بیٹیاں، نواسیاں سب اٹھارہ برس کے، تعظیم مفقود، سب برابر۔

دوسری پریشان کن بات یہ کہ ماسوائے کھانے، سونے اور کسی کے ساتھ سونے کے اور کوئی کام نہیں ہو گا۔ اور تو اور نہ کوئی تخلیق ہو گی، نہ کوئی تحقیق البتہ کہتے ہیں تنوع تو بس چاہتے ہی وقوع پذیر ہو جائے گا۔ نہ فلم ہو گی نہ انٹرنیٹ، نہ کتاب ہوگی نہ رقص و موسیقی، بس پارک ہی پارک، پھول ہی پھول، پرندے ہی پرندے، مناظر ہی مناظر۔ نہ غم نہ غصہ، نہ پریشانی نہ سعی، نہ امید نہ نا امیدی، بس خواہشیں ہی خواہشیں جو جھٹ سے پوری ہو جائیں گی۔

مثال کے طور پر کسی جنتی کو خواہش ہوئی کہ کاش میں لڑکی ہوتا تو وہ فوراً لڑکی بن جائے گا۔ ساری حوریں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں گی کہ بھائی صاحب کہاں گئے کیونکہ وہ خود حور تمثال لڑکی میں بدل چکے ہیں۔ وہ ستر حوریں اور ایک سے چار تک بیویاں تو بیوہ ہوئیں سو ہوئیں مگر یہ بھائی صاحب جو بی بی بن گئے، ان کا کیا بنے گا، مرد کہاں سے آئے، سب تو بک ہیں۔ حوریں تو خیر جہنم سے چھوٹ کر اور جہنم کے بارے میں یکسر بھول کر آنے والوں کو الاٹ کی جا سکیں گی، بیویاں بھی سابق جہنمیوں کو جن کی بیویاں تاحال جہنم مقیم ہوں گی ، عارضی طور پر بیاہ دی جائیں گی اگر اللہ نے چاہا تو۔

ممکن ہے ایسے ہی سابق جہنمی کے حصے میں مرد سے بنی عورت آ جائے، ابھی وہ دونوں ’عمل‘ کی ابتدا میں ہی ہوں کہ بھائی صاحب جو بہنا ہیں کا یک لخت پھر سے مرد بننے کو جی کر جائے اور جھٹ سے وہ مرد بن جائے تو جنت میں پہنچے اس بیچارے شوہر یا مالک کا تو ”تراہ“ ہی نکل جائے گا۔ یہ صورت حال الٹ بھی ہو سکتی ہے، یعنی کسی عورت نے مرد بننے کی خواہش کر دی تو اس کے لیے سٹور میں پڑی حوروں کو ٹھکاٹھک زندہ کیا جائے گا مگر دو دن بعد ہی بی بی بھائی اوب جائے اور پھر سے عورت بن جائے تو۔ خیر یہ تو ہمارے سوچنے کی بات نہیں، اس کے لئے اللہ کے حکم سے منتظم اور ٹیکنیشن فرشتے ہوں گے۔

انسان کتنے مناظر تبدیل کروا لے گا، کتنے ہزار سال ایک ہی بیوی یا حور یا شوہر کے ساتھ ہم بستر رہ سکے گا۔ ٹھیک ہے حسین سے حسین تر ہوتی جائے، نقوش تبدیل ہوتے چلے جائیں گے مگر پھر بھی اکہتر، بہتر، تہتر، چوہتر کے ساتھ کتنے کروڑ سال بتائے جا سکتے ہیں۔ مباشرت کے عمل میں چاہے تکان نہ بھی تب بھی۔ لیکن اگر دماغ میں بور ہونے اور بالکل تبدیلی کی خواہش کا بٹن نہیں ہو گا تب تو سارے جنتی ماسوائے روبوٹ کے کچھ نہیں ہوں گے یعنی کھایا پیا اور سو گئے۔

نہ بغض ہو گا نہ کینہ، نہ سازشی ذہن ہو گا نہ سیاسی سوچ۔ یہ ہونے بھی نہیں چاہئیں، دنیا میں بھی اچھے ملکوں میں بہت حد تک ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ فارغ وقت مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کی جا رہی ہے تاکہ وہ استراحت کرے اور یا چاہے تو کوئی تخلیقی کام بھی کرتا رہے۔ ایسا تو نہیں کہ کچھ ملک یہیں جنت بن جائیں گے جب سب کچھ خودکار ہونے لگے گا۔ خیر یہ تو میری کافرانہ سوچ ہے۔

مگر وہ جو مذہب میں بیان کردہ جنت ہے ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی انسان بور ہو جائے اگر وہ روبوٹ نہ ہو تو۔ تب کیا اسے تفریح کے لیے جہنم بھیجا جائے گا یا ویسی ہی دنیا میں جہاں اسے پھر سے جانے کی خواہش ہو، اگر وہ انسان ہو روبوٹ نہ ہو تو۔

میری تو اللہ تعالیٰ کو تجویز ہے کہ اسی دنیا کو ایسی جنت بنا ڈالے جہاں انسان پانچ سات سو سال بھرپور زندگی گزارے، چاہے تو ”سیلف ڈسٹرک“ کا بٹن دبا کر نابود ہو جائے اور چاہے تو ”ریوائیو“ کا بٹن دبا کر پھر سے ری فریش ہو جائے۔ بیویوں، شوہروں، حوروں وغیرہ کا مسئلہ انسان خود انسانوں جیسے روبوٹ بنا کر حل کر ہی لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments