تجدیدِ عہد کا دن


تاریخ گواہ ہے، جو قومیں تاریخی واقعات کا مطالعہ کرنے اور اس سے سبق حاصل کرنے کا عمل جاری رکھتی ہیں، وہی زندہ رہتی ہیں۔ وہ لمحے جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنتے ہیں ، وہ ساعتیں جو روز و شب کی مسافتوں میں سنگ میل بنتی ہیں۔ وہ گھڑیاں جو صدیوں کی دیواریں پھلانگ کر تمام زمانوں کو اپنی گرفت میں لے کر مسکراتی ہیں، انسانی عزم و ہمت اور جہد مسلسل کی پذیرائی و کامرانی کا معیار بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی گھڑیوں، ایسے ہی لمحوں اور ایسی ہی ساعتوں میں قوموں کی تشکیل ہوتی ہے۔

برصغیر پاک وہند میں بھی ایک قوم تشکیل نو کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ یہ وہ قوم تھی جو غلامی کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں پر مشتمل تھی۔ یہ وہ انسان تھے جو جہالت، استحصال اور ظلم و جبر کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں راستہ دکھانے والا کوئی نہ تھا۔ یہ وہ ہجوم تھا جسے ترتیب و تشکیل کی ضرورت تھی۔ آنکھیں خلاؤں میں گھور رہی تھیں، ساعتیں گوش برآواز تھیں۔ پھر عوام ایک آواز کی سمت دیوانہ وار لپکے۔ یہ آوازعلامہ محمد اقبال کی آواز تھی۔ اس آواز نے اس ہجوم کو ایک قوم بننے کا شعور بخشا۔

قائداعظم کے اس قول میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان اسی دن قائم ہو گیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہی دو قومی نظریے کی عمارت کی پہلی اینٹ تھی۔ یہ تحریک اپنے جلو میں بے شمار عظیم ہستیوں کو لئے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور آخر قائداعظم محمد علی جناح نے اسے منزل آشنا کیا۔ 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے 1947ء تک کے مختصر عرصے پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ قائداعظم اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے تحریک پاکستان کو قیام پاکستان تک لانے میں کس قدر جدوجہد اور کوشش پیہم کو شعار بنایا۔

نپولین کہا کرتا تھا کہ ”اگر ہرنوں کی فوج کا سپہ سالار شیر ہو تو ہرن بھی شیروں کی طرح لڑتے ہیں اور اگر شیروں کی فوج ہرن کی قیادت میں آ جائے تو شیر بھی ہرنوں کی طرح بھاگنے لگتے ہیں“ ۔ لیکن مسلمانوں کی تحریک آزادی نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان قوم خود بھی شیروں پر مشتمل ہے اور اس کا قائد بھی شیر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان بن کے رہا اور شکست فاش مخالفین کا مقدر بن گئی۔

مارچ کا مہینہ موسم بہار کہلاتا ہے۔ اس مہینے میں زندگی کروٹ لے کر بیدار ہوتی ہے حسن و جمال شباب آشنا ہوتا ہے۔ 1940ء کا ماہ مارچ بھی بہار کا موسم تھا۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے وسیع میدان منٹو پارک میں لاکھوں انسانوں کے سامنے اور قائداعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی وہ مشہور قرارداد منظور کی تھی، جس نے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام حاصل کیا تھا۔ اسی قرارداد کی رو سے پاکستان کی مملکت وجود میں آئی۔

23 مارچ 1940ء کا دن شاہد ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے تمام سرکردہ رہنما منٹو پارک میں موجود تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو قائداعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت میں مسلمانان ہند کے کاروان آزادی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی اس قراداد اور دو قومی نظریے کی حمایت میں تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے مجاہدین، شہزادہ فضل داد خان (صدر مسلم لیگ، ڈیرہ) ، مولانا محسن علی عمرانی (جنرل سیکرٹری،نوجوانان مسلم لیگ۔ ڈیرہ) ، ڈاکٹر میر عالم خان راقب، اللہ بخش چوڑیگر، اور فضل الرحمان خواجکزئی بھی اکابرین مسلم لیگ کی خصوصی دعوت پر ایک وفد کی صورت میں 20 مارچ 1940 کو اس جلسے میں شرکت کرنے کے لیے گئے اور اس وفد کا قیام، طعام اور سفری انتظام پیر لطیف خان زکوڑی نے اپنی جیب خاص سے کیا تھا۔

اس زندگی بخش قرارداد کی حمایت میں سب سے پہلے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے پرجوش تقریر کی۔ ان کی شعلہ بیانی نے جلسے میں شریک لاکھوں افراد کے دلوں میں جذبوں کی آگ بھڑکا دی۔ ہر تقریر جوش، جذبے اور خلوص دل کی آئینہ دار تھی اور ہر تقریر میں سارے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کی ترجمانی کی گئی تھی۔ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اور اس وقت بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے جذبات صرف وہ خود ہی محسوس کر سکتے تھے۔ یہی وہ دن تھا جس نے منزل کا سراغ دیا۔ جس نے جذبوں کو مہمیز دی۔ جس نے ولولوں کو زندگی بخشی ، جس نے فکر کو راہ عمل سے آشنا کیا اور جس نے راہ عمل کو مقصد حیات تک پہنچا دیا۔

23 مارچ در حقیقت تجدیدعہد کا دن ہے اور ہمیں یوم پاکستان مناتے ہوئے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ قرارداد پاکستان میں درحقیقت کیا مطالبات رکھے گئے تھے اور قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ حضرت قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست ہو گی جہاں عوام کو بنیادی حقوق، شخصی آزادی اور جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہوگا۔ ماہ و سال کا سفر جاری رہا، دن پر لگا کر اڑتے گئے اور آج ہم 2021 میں بیٹھے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عوام ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور نعروں کی خوشحالی، تبدیلی اور ترقی کے خوشنما دعوے اور نعرے سنتے رہے لیکن ان کی حالت آج تک نہیں بدل سکی۔

”اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کر تے ہیں“ بچپن میں ہم اکثر یوم آزادی، یوم پاکستان یا کسی بھی قومی دن کے موقعے پر یہ ملی نغمہ گنگنایا کرتے تھے۔ یہ وہ عہد تھا جو ہم ہر سال، سال میں تین چار مواقعوں پر تو ضرور ہی کیا کرتے تھے، اور اس انتظار میں رہتے کہ شاید اس سال نہیں تو اگلے سال، اگلے سال نہیں تو اس سے اگلے سال ضرور ہمارا یہ عہد وفا ہو گا اور اس میں جو جو اقرار اور عزم ہم کیا کرتے تھے وہ ان شاء اللہ پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔

سال میں جب بھی پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان کے ایام آتے ہیں ، یقین مانیے دل بوجھل ہو جاتا ہے۔ یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی، ہماری نوجوان نسل ان ایام سے کتنی واقفیت رکھتی ہے یہ نکتہ ہمارے لیے خود احتسابی سے کم نہیں ہے، ہمارا تعلیمی نصاب اب اس قابل نہیں رہا کہ جس کے ذریعے ہماری نوجوان نسل تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان سے متعلق برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کے حقائق جان سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments