نائی کو باربر کھا گیا


ڈھول کی تھاپ پر۔ دیگوں کی آواز۔ لوگوں کی خوش گپیاں۔ اور اس سب ہلے گلے میں ایک آواز بلند ہوتی ہے چری اڑی۔ بو کاٹا۔ اور بچہ رونے لگتا ہے پر بڑے اس کے گھر والوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ اینٹی سیپٹک کے طور مٹی کے چولہے سے جلی لکڑی کی سوا (راکھ) اٹھا کرمل دی جاتی ہے۔ لو جی رسم ختنہ ادا ہوئی مبارک ہو۔ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔ استاد سخن غالب صاحب سے ادب کے ساتھ معذرت مصرعہ بے محل استعمال کیا۔

پرانے وقت میں نائی ایک سماجی ’آل راونڈر‘ ہوا کرتا تھا۔ ایسا کردار جو زندگی کی ہر خوشی غمی میں شامل رہتا۔ ایک بہترین ذریعہ ابلاغ جو آج کل کی صحافت اور خود ساختہ سینئر اور سینئر ترین تجزیہ کاروں کی طرح نہیں بلکہ ذمہ دارنہ اخلاقیات کے ساتھ خبر لیتا اور دیتا تھا۔ جسے بستی کے ہر گھر کی خبر ہوتی۔ جیسے محلے کی نکڑوں میں ہونے والے سیاسی و غیر سیاسی گفتگو کا پتہ ہوتا۔ جیسے پتہ ہے کس کی فصل کو کتنا نقصان ہوا اور کیوں ہوا۔ چوہدری کی چال اور مکینوں کا حال سب جانتا ہے۔ جس کی دکان پر محلے کی کھڑکیوں سے تانکہ جھانکی اور بیٹھکوں میں ہونے والے فیصلوں پر بات چیت ہوتی۔ علاقائی خیر خبر کا مرکز تھا۔

ویسے اردو میں نائی۔ عربی میں حجام۔ کمال ہمہ جہت انٹراپرینور تھا۔ ٹوٹکوں سے علاج کرنے والا طبیب۔ چھوٹا سرجن جو خطنہ سے لے کر ناک کان چھدنے کا ہنر رکھتا ہے۔ حجامہ کرتاہے۔ ناخن، گیسو، داڑھی، مونچھ کو سنوارانا۔ انسان کو خوبصورت بناتا ہے۔ تقریبات میں پکوان تیار کرنے والا باورچی۔ رشتے کروانے ولا سماجی کارکن۔ خبر رکھنے اور پہچانے والا صحافی۔ حجام کوہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ معاشرے کا ایک بہت ہی قابل قدر رکن تھا۔

حجام غیر ہوتے ہوئے بھی گھر کے فرد کی طرح خاندانی نظام کا اہم حصہ رہا۔ اس کا خاندانی تعلق خاندانوں کو ملانے کے لئے موثر کردار ادا کرتا۔ رشتہ کے متعلق بہترین معلومات کا وسیلہ۔ لڑکی والوں کی طرف سے دعوت نامہ پہنچانے کی ذمہ داری بھی وہ خوب نبھاتا اور عمدہ پکوان تیار کر کے مہمانوں خاطر توازعہ کرنے کا بھی ماہر۔ باراتی زیادہ ہو گئے کھانا تھورا نہ ہو جائے منٹوں میں حل نکال لے گا۔

اردو ادب میں حجام کی شخصیت پر محاورے کہے گئے۔ جیسے کہ۔
ایک میں ایک میرا بھائی تیسرا حجام نائی
حجام کے آگے سب کا سر جھکتا ہے
حجام کا استرا میرے سر پر بھی پھرتا ہے اور تمہارے سر پر بھی۔
حجام رے حجام تیری آرسی بسولا چھین لوں گا تو تو بھینس کاہے سے دوہے گا۔

فارسی کی ایک کتاب یاد آئی ’سرگذشت حاجی بابا اصفحانی‘ کمال کی کہانی ہے جس میں ناول اور سفر نامے دونوں کے مزے ہیں۔ اور ایک حجام کی کہانی موقع ملے تو پڑھیے گا۔

بات ہو حجام کی اور زلف کا ذکر نہ ہو۔ بات مکمل نہیں ہوتی ہے محبوب کی زلف کا ذکر چھڑے بغیر۔ قارئیں بھی کہیں گے زلف تراش کی بات کرتے کرتے زلفوں کے جادو کا ذکر۔ جی ہاں زلف تراش اور زلف۔ اب زلفوں کی خوبصورتی کا ذکر اردو ادب سے زیادہ کہاں ملے گا۔ اردو شاعری سے کچھ اشعار جس میں سر فہرست استاد سخن میر تقی میر کا یہ شعر

تیری ہی زلف کو محشر میں ہم دیکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا
اور کہتے ہیں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
غالب صاحب کا کہنا ہے
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی (آرزولکھنوی)
جون ایلیا نے کہا۔
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے ( سودا )
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا (منور رانا)
نہ جھٹکو زلف سے پانی یہ موتی ٹوٹ جائیں گے
تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے (راجیندر کرشن)
زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور (جاں نثار اختر)
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے
سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی (عدم)
آج حجام کی نے سر سہلا
خوب ناخن لئے رقیبوں کے (حاتم)
دست گاہ منفعت ہے گرچہ ہے بے آبرو
حسن بے پردہ ہے گویا آئینہ حجام کا (سحر)
خط بناتے وقت ٹوٹا حسن یار
اپنے دل میں خوش بہت حجام ہے (اودھ پنچ)

آج باربر کارپوریٹ بزنس کی شکل اختیار کر چکا ہے اب نائی کی دکان سیلون میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جبکہ سماجی روایات سے دور باربر حجام کو کھا گیا ہے۔ گاہک وقت لے کر آئے کام کروائے اور چلتا بنے۔ استاد کاؤنٹر پر حساب کتاب میں مصروف اور شاگرد گاہکوں کو بھکتا رہے ہیں۔ ہر کام کا ٹائم فکس ہے۔ بڑا بڑا لکھا ہوتا ہے فارغ بیٹھنا منع ہے۔ کوئی اضافی گفتگو نہیں۔ بس کام اور اجرت کا تعلق ہے۔ موبائل ایپ کے ذریعہ نت نئی اسٹائلنگ کی جا رہی ہے۔ قدیم اوزاروں کی جگہ جدید اوزار آ گئے ہیں۔ باربر عرف اسٹائلسٹ اب سماجی کارکن نہیں رہا بلکہ ایک بزنس مین ہے جس کا مقصد پیسہ بنانا۔ منافع کمانا ہے بس۔

اگر کہیں بستی یا شہر کے کسی ویران کونے میں کوئی حجام ملے تو کچھ وقت کے لئے زندگی کی تیز رفتار کو روک کر اپنی حجامت بھی بنوائے گا اور اس کی کہانی بھی سنیے گا اچھا لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments