سماج کو سمجھنے کے بنیادی اصول


ہم معاشرتی جانور ہیں اور ہمیں اپنی بقاء کے لیے ایک معاشرے میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ اس معاشرے کے ہم پہ اثرات بھی ہوتے ہیں۔ آپ نے سن رکھا ہو گا کہ اپنی صحبت اچھی رکھو یا پھر یہ کہ صحبت کا انسان پہ بہت اثر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ اپنی ذات پہ ہی غور کر لیں تو آپ کے سامنے یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ آپ جب اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ کے اعمال اور حرکات مختلف ہوتی ہیں جب کہ کلاس روم میں آپ مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔

بلکہ یہ بھی نہایت عمومی مشاہدہ ہو گا کہ کچھ دوستوں کے ساتھ آپ کا رویہ تکلفانہ ہوتا ہے۔ آپ اپنی حدود کو مدنظر رکھتے ہو جب کہ کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ بہت بے تکلفی سے پیش آتے ہیں اور آپ کے اعمال میں کوئی بناوٹی پہلو نہیں ہوتا۔ اس ساری مثالوں سے ایک بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ارد گرد کے لوگوں کا آپ پہ اثر ہوتا ہے اور اسی طرح مختلف صورت حالات (Social Situation) میں آپ کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔

ہم ”سماجی نفسیات“ (Social Psychology) میں اسی مختلف سماجی حالات میں مختلف سماجی رویوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک انسان مختلف لوگوں کا اثر کس طرح قبول کرتا ہے یا یہ کہ وہ کس طرح اپنے ارد گرد کے لوگوں پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ اسی طرح یہ کہ مختلف سماجی حالات میں وہ کس طرح عمل کرتا ہے اور وہ اس طرح عمل کیوں کرتا ہے؟ اسی طرح یہ کہ لوگ مختلف تنظیموں اور جماعتوں سے تعلق کیوں قائم کرتے ہیں اور پھر یہ کہ یہ تعلق ان پہ کس طرح سے اثر انداز ہو سکتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ ان سب سماجی رویوں کو کس طرح سمجھا جائے؟ یعنی یہ تو بہت وسیع مضمون ہو گا۔ جی بالکل بات کچھ ایسی ہی ہے۔ ماہرین نفسیات نے ہر ہر موضوع پہ تحقیق کر رکھی ہے اور مزید تحقیق جاری ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس علم کا ایک سمندر وجود میں آ جاتا ہے جسے عبور کرنا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ ۔ ہمارے پاس چند بنیادی اصول ہیں سماجی نفسیات (Social Psychology) کے جن کی مدد سے ہم تمام سماجی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں یا یوں کہتے کہ ان کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں۔

تو آئیں ہم ان چند اصولوں سے آپ کو آشنا کرتے چلیں۔ اس قسط میں صرف دو بنیادی اور اہم ترین اصولوں کا ذکر کیا جائے گا جب کہ اگلی اقساط میں ہم باقی ماندہ اصولوں کے متعلق بات کریں گے۔ جی تو پہلا اصول یہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت خود بناتے ہیں یعنی ہر شخص حقیقت کو خود تعمیر کرتا ہے انگریزی میں ہم اسے ”Construction of Reality“ کہتے ہیں۔ ابھی آپ کو شاید یہ اصول عجیب سا لگ رہا ہو لیکن چلیں ہم اسے تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

عام خیال تو یہی ہے کہ دنیا معروضی حالت میں موجود ہے ہر چیز اس کی ٹھوس ہے، یعنی یوں کہے کہ سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ مثال کہ طور پہ آپ کرکٹ کا ایک میچ دیکھتے ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے بہت سے دوست بھی یہ میچ دیکھ رہے ہیں۔ کیا سب کا دیکھنے کا انداز ایک سا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ آپ اپنے بہت قریبی دوست کی رائے بھی اگر کسی کھلاڑی کے کھیلنے کے انداز کے متعلق لیں گے تو عین ممکن ہے وہ آپ سے مختلف ہو۔ یعنی واقعہ تو ایک ہی ہو گا مگر اسے دیکھنے کا انداز مختلف ہو گا۔ اسی کو ”Construction of Reality“ کہتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی ”حقیقت“ اپنے مطابق بناتے ہیں۔

آپ کی نظر سے وہ ایک A۔ Cکا اشتہار گزرا ہو گا جس میں نوازالدین صدیقی کی بیوی انہیں کہتی ہے کہ ”کلثوم اور شہزاد بھی اچھے لگ رہے تھے ناں!“ اور نواز الدین صدیقی صاحب اپنی ”حقیقت“ میں گم جواب دیتے ہیں۔

” سرخ ساڑھی اور نیلا بلاوز“ Combinationہی اعلی ہے ”۔ اس پہ ان کی بیوی ذرا ناراض ہو کر پوچھتی ہیں کہ بھلا شہزاد کی شرٹ کا رنگ کیا تھا؟ اور چونکہ نواز صاحب کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا ہوتا لہذا ان کا پسینہ چھوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ چلیں اس حوالے سے آخری مثال دے کر ہم دوسرے اصولوں کی جانب بڑھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مختلف سیاسی پارٹیاں موجود ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خاں صاحب کی اپنی پارٹی کے لوگ اور ان کے ووٹرز ان کے متعلق یقیناً مثبت رائے رکھتے ہیں لیکن اس کے برعکس مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگ ان کے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بنیادی طور پہ عمران خان شخصیت ایک ہی ہیں تو پھر ان کے متعلق مختلف سیاسی پارٹیاں مختلف آرا کیوں رکھتی ہیں؟ جی تو اس کا جواب اسی“ Construction of Reality ”کے اصول میں مضمر ہے کہ لوگ“ اپنی حقیقت ”خود تعمیر کرتے ہیں۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ ”سماجی اثر“ (Social influence) ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پہ اثرانداز ہوتا ہے۔ یعنی آپ کسی قسم کی تنظیم سے وابستہ ہیں، آپ کس نسل سے ہیں، یا کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح آپ کس سیاسی جماعت کا حصہ ہیں اور کس مذہب کے ماننے والے ہیں یہ سب چیزیں ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔

دوسرے لوگوں کی موجودگی میں تو یقیناً ہمارا رویہ اور اعمال خلوت سے مختلف ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگوں کی غیر موجودگی میں بھی ہم ان کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ مثال کہ طور پہ اگر آپ کسی کھیل کے شوقین ہیں اور پھر محب وطن بھی ہیں تو آپ دنیا کے کسی کونے میں چاہے ہم وطنوں کی غیر موجودگی میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں اپنے ملک ہی کی ٹیم کو سپورٹ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments