ابو گھر پر نہیں ہیں!


جمہوریت چاہے ہائبرڈ ہو، چاہے اصلی تے وڈی، ایک شے مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے کہ عوام کسی نہ کسی طرح خود کو حکومت کے عمل میں شریک سمجھتے ہیں۔

’ووٹ‘ کی ایک ننھی سی پرچی، جس کے چال چلن پر دہائیوں سے شک کیا گیا ہے، عوام کو کسی نہ کسی طرح اپنی طاقت کا احساس دلاتی رہی ہے۔

کہا گیا کہ انتخابات غیر شفاف تھے، ووٹ جھوٹے ڈالے گئے، جھرلو پھرا، تھیلے غائب ہوئے، پھر بھی غریب سے غریب شخص بھی انتخابات کے قریب ایک زعم میں پھر رہا ہوتا ہے کہ اب کوئی آیا ووٹ لینے اور تب آیا۔

سیاستدانوں کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ سٹیبلشمنٹ چاہے کتنی بھی مہربان ہو لیکن طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہیں۔

ویسے تو اس بات کا علم سٹیبلشمنٹ کو بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے ذرائع ابلاغ اور نصاب پر شب خون مارا جاتا ہے اور عوام کی آنکھوں پر کھوپے چڑھانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

خرید و فروخت بھی ان کی ہی کی جاتی ہے جو عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ اب یہ بکنے والوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیوں بکے؟

لیکن جو عوام بریانی کی ایک پلیٹ اور ایک لنچ باکس کی خاطر اپنا ووٹ دے آتے ہیں ان کے لیڈروں سے کس بات کی توقع کی جا سکتی ہے؟

لیکن میرے نزدیک ایسا نہیں۔ نہ عوام بریانی کی ایک پلیٹ پر بکتے ہیں اور نہ ہی تمام لیڈر اتنے اتھلے ہوتے ہیں کہ چند ٹکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ دیں۔

کہانی بہت گندی اور بہت طویل ہے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ دیگر اخلاقی نظریات کی طرح جمہوریت میں بھی یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ کون، کب ،کس کے ہاتھ، کس قیمت پر اپنا سودا کر لے۔

سو سودا ہوا اور اس کے نتیجے میں دو پارٹی نظام سے اکتائے عوام سے پی ٹی آئی چھین لی گئی۔

چن چن کے دانے ’الیکٹ ایبلز‘ کے نام پر جمع کیے گئے، نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا اور مبینہ طور پر جمہوریت کا نقاب اوڑھے سٹیبلشمنٹ ہی سامنے آ گئی۔

پی ٹی آئی کے بہت سے نظریاتی کارکن اور حمایتی پرامید تھے کہ شاید یہ کوئی سیاسی داؤ ہے جسے لگا کے پی ٹی آئی کی قیادت شاید کچھ بھلا کر گزرے گی لیکن دو ڈھائی برس سے بھی کم عرصے میں حقیقتاً لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور اب سوائے اپوزیشن پر اعتماد کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔

پی ڈی ایم کے دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے، آزمائے ہوؤں کو آزمانے کا جوا تھا۔ میڈیا نے بھی یہ جوا کھیلا اور کسی نہ کسی وجہ سے عوام بھی اپنا وقت ضائع کرتے رہے اور سیاسی مباحثے میں دماغ کھپاتے رہے۔

تجزیہ نگاروں نے سب پوتھی پتر نکال کر سیدھے کیے اور حساب کتاب لگائے۔ یوسف رضا گیلانی والے اپ سیٹ کے بعد مسئلہ فیثا غورث سلجھ گیا اور اے سکوئر جمع بی سکوائر کا صاف جواب سامنے آ گیا۔

بار بار کے ڈسے ہوئے عوام اور میڈیا دم سادھے اگلا منظر دیکھنے کے منتظر تھے، پھر پردہ ہٹا اور سب نے دیکھا، کیمرہ، لائٹس، ایکشن، وہی ہوا جو سکرپٹ میں لکھا تھا۔ کہانی میں ٹوئسٹ تھا۔

پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی ہوا، زرداری صاحب کو ایک بہت ضروری کام یاد آیا جس کی وجہ سے بلاول بھٹو ایسی صورتحال کا شکار ہوئے کہ یہ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ ’ابو کہہ رہے ہیں کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔‘

بات یہ ہے کہ ایک اور ابو بھی گھر پر نہیں ہیں۔ پھر جو ابو گھر پر ہوں گے معاملات وہی سنبھالیں گے۔

اب یہ ہے کہ وہ جن کو حزب اختلاف کی تحریک پر بہت مان تھا، جھینپے جھینپے پھرتے ہیں۔ منہ چھپائے چھپائے جب نظر اٹھا کے دیکھتے ہیں تو حکومت کے حامی بھی اتنے ہی شرمندہ نظر آتے ہیں۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔

ویسے ابو گھر سے جاتے ہی کیوں ہیں جبکہ ان کے سب مفادات گھر ہی سے وابستہ ہیں؟

اس سوال کا جواب بھی دیوار پر لکھا ہے لیکن لکھا جس رسم الخط میں اور جس سیاہی سے ہے اسے پڑھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔

پس ثابت ہوا کہ وطن عزیز میں جو فلم ابھی جاری ہے وہ فارمولا فلم نہیں بلکہ ’ایوانٹ گارڈ‘ فلم ہے۔

آپ بس تماشائی بنے رہیں تو بہت لطف آئے گا۔ اس ہائبرڈ جمہوریت کو کسی بھی طرح کی جمہوریت سمجھ کے خود کو حصے دار سمجھیں گے تو آخر میں بہت شرمندہ ہوں گے۔

شرمندگی سے بچیے، فلم دیکھیے، جو ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).