23 مارچ: یومِ پاکستان پر پریڈ کی روایت کب سے قائم ہے اور فوجی پریڈ کی عالمی تاریخ کیا ہے؟


پریڈ

یوم پاکستان پر پاکستان کی مسلح افواج کی پریڈ منگل یعنی 23 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہو گی۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس کورونا وائرس کی وجہ سے اس تقریب کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا تھا اور عالمی وبا کے بڑھتے خطرات سے عوام کو محفوظ رکھنے کی خاطر حکومت نے پریڈ منسوخ کر دی تھی۔ اگرچہ ابھی پاکستان اس وائرس کی تیسری لہر کی لپیٹ میں ہے اور اس سے کاروبارِ زندگی بھی متاثر ہوا ہے مگر اس بار اس فوجی پریڈ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔

ایک سینیئر فوجی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مرتبہ ‘یوم پاکستان پریڈ’ کے انعقاد کا مقصد دنیا اور اپنے عوام کو کو یہ پیغام دینا ہے کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندوں سے لڑائی کے بُرے دن گزر گئے اور ہم معمول کی زندگی کی طرف اب واپس لوٹ آئے ہیں۔

اس روز پاکستان کی تینوں مسلح افواج یعنی بری فوج، فضائیہ اور بحریہ کے علاوہ سٹرٹیجک فورسز عوام کے سامنے اپنی فوجی قوت کا اظہار کریں گی۔ پریڈ دیکھنے والوں میں فوجی حکام، سفارت کار، حکومتی شخصیات، سیاسی رہنما اور عوام شامل ہوں گے۔

کورونا وائرس کی موجودگی اور پھیلاؤ کے دوران مسلح افواج کے اہلکار اور پریڈ دیکھنے والے تماشائی دونوں ہی حکومت کی تیار کردہ احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر عمل کریں گے تاکہ وبا سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی فوجی مشقیں

کورونا وائرس: پاکستان میں 23 مارچ کو ہونے والی فوجی پریڈ منسوخ

شمالی کوریا امریکی بحری جہاز ’ڈبونے کے لیے تیار ہے‘

یاد رہے کہ مارچ 2008 سے مارچ 2015 کے درمیان سات سال 23 مارچ کی پریڈ منعقد نہیں ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ شہروں میں آئے روز پیش آنے والی دہشت گردی کی وارداتیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات تھے۔ اس دور میں قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد گروہ مسلسل دہشت گرد حملے کررہے تھے۔ تاہم یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ کی قومی روایت مارچ 2015 میں پھر سے بحال ہوئی۔

گذشتہ پانچ سال کے دوران ‘یوم پاکستان پریڈ’ اسلام آباد ایکسپریس وے کے نام سے مشہور شاہراہ کے کنارے پر واقع شکرپڑیاں گراونڈ میں منعقد ہوتی ہے۔

30 برس سے زائد عرصہ تک مسلح افواج کی پریڈ کے انعقاد کے مقامات مسلسل تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اس پریڈ کا اصل مقام پہلے راولپنڈی کا ریس کورس گراؤنڈ ہوا کرتا تھا جو بعد میں تبدیل ہوکر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شاہراہ دستور پر منتقل ہو گیا۔

عام طور پر فوجی پریڈز کا انعقاد اکثر غیرجمہوری یا آمرانہ حکومتوں سے نتھی کیا جاتا ہے لیکن فرانس اور برطانیہ جیسی جمہوری اقوام بھی ان کا اہتمام کرتی ہیں۔

صدر ٹرمپ، صدر میخواں

صدر ٹرمپ، صدر میخواں

امریکہ میں فوجی پریڈ کی خواہش کیوں پوری نہ ہو سکی؟

جولائی 2017 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس کا دورہ کیا اور فرانس کے صدر ایمنیوئل میخواں اور ان کی اہلیہ بریجیٹ میخواں کے ہمراہ مشہور ‘بیسٹیل ڈے’ پر ہونے والی پریڈ میں شرکت کی۔ امریکی صدر فرانس کی فوج کی شاندار اور پرشکوہ پریڈ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بھی اسی طرح کی فوجی پریڈ کرانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

صدر ٹرمپ کی منصوبہ بندی کے مطابق یہ پریڈ 2019 میں منعقد ہونا تھی لیکن صدارتی منصوبہ بندی ابتدا میں ہی رکاوٹوں کا شکار ہوگئی۔ وائٹ ہاؤس کو اس پریڈ کے انعقاد کے لیے رقم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ کے خیال میں ایسی پریڈ دنیا کو غلط پیغام بھیجنے کا باعث بنے گی۔

واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ کے خیال میں فوجی پریڈ امریکی معاشرے کی غیرمعمولی اور گہری جمہوری اقدارکے منافی ہے اور اس سے ان کی روایات پر اثر پڑے گا (کیونکہ) فوجی پریڈ دنیا میں اکثر جمہوری یا آمرانہ ومطلق العنان حکومتوں سے جوڑی جاتی ہیں۔ فروری 2018 میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا تھا کہ ٹرمپ یہاں ایک بڑی فوجی پریڈ کے انعقاد کے خواہش مند ہیں جیسا کہ انھوں نے دنیا میں دیکھا ہے۔

خبر میں مزید بتایا گیا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی رقم کی عدم فراہمی کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ چکا ہے جبکہ یہ تنقید الگ سے ہورہی ہے کہ فوجی پریڈ ہوئی تو اس سے دنیا کو کیا پیغام ملے گا۔

امریکی فوج جو چار جولائی یا جنگ میں فتح جیسے مواقع کا جشن نہیں مناتیں، تو امریکہ میں ایسی پریڈز شاذونادر ہی منعقد ہوئی ہیں اور صدر ہیری ٹرومین اور جان ایف کینیڈی کی حلف برداری کے دن ہونے والی پریڈز میں فوجی سازوسامان اور دستے شامل تھے۔

امریکی فوج کی پریڈ

دنیا میں فوجی پریڈز کہاں کہاں منعقد ہوتی ہیں؟

ہر سال چار جولائی کو ہونے والی پریڈ کے علاوہ آخری بار امریکی دارالحکومت میں ایسی بڑی پریڈ 1991 میں مشرق وسطیٰ میں عراقی فوج کے خلاف جنگ خلیج میں امریکی فتح کے بعد منعقد ہوئی تھی۔ برطانیہ اور فرانس جہاں بڑی فوجی پریڈز ایک روایت ہیں، سے موازانہ کریں تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہت ہی مختلف قسم کی سیاسی اور فوجی روایات کا انبار ہے۔

دورِ جدید کے فرانس اور برطانیہ دونوں نے اپنے شاہانہ ماضی سے سیاسی اور فوجی روایات ورثہ میں پائی ہیں۔

ان کی ایشیا اور افریقہ میں مضبوط فوجی روایات پر مبنی وسیع ریاستیں قائم تھیں جبکہ واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ آج بھی امریکہ کو جمہوریہ تصور کرتی ہے جس کے کوئی نو آبادیاتی یا شاہانہ عزائم نہیں۔ مثال کے طورپر جب 2003 میں امریکی افواج نے عراق پر قبضہ کیا تو اس وقت کے صدر جارج بش اور امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمس فیلڈ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ وضاحت کی کہ امریکہ ایک ایمپائر (سلطنت) نہیں اور عراق یا مشرق وسطیٰ میں اس کے کوئی ‘امپیریل’ عزائم نہیں۔

سوچ کا یہ انداز ہی دراصل مسئلے کی اصل جڑ ہے جس کا سابق امریکی صدر کو واشنگٹن میں اُن خطوط پر ایک بڑی فوجی پریڈ منعقد کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑا جس طرح برطانیہ اور فرانس جیسے دیگر جمہوری ممالک میں عام طور پر ہوتی ہیں۔

فرانس میں بیسٹیل ڈے پریڈ ہر سال 14 جولائی کو ہوتی ہے۔

فرانس

’بیسٹیل ڈے‘ فرانس میں ایک قدیم مشہور میلہ یا جشن ہوتا تھا جسے نپولین نے فوجی رنگ دیا۔ اس وقت سے فرانس میں ہر سال اس دن ایک بڑی فوجی پریڈ ہوتی ہے، جس میں فرانس کے صدر شرکت کرتے ہیں۔

برطانیہ ایک اور ایسا جمہوری ملک ہے جہاں فوجی پریڈ کے انعقاد کی ایک دیرینہ مستحکم روایت چلی آرہی ہے۔

برطانیہ کئی وجوہات کی بنا پر فوجی پریڈ کا اہتمام کرتا ہے۔ ان میں ملکہ برطانیہ یعنی کوئین ایلزبتھ کی سالگرہ جیسے شاہی تہوار، فوجیوں کی گھروں کو واپسی، سرکاری جانچ یا معائنہ (انسپیکشن) کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔

مشرق میں مطلق العنان حکومتوں کا اپنے دارالحکومتوں میں فوجی پریڈز کا انعقاد ایک عام روایت ہے۔

مثال کے طورپر سویت روس اکتوبر 1917 کے انقلاب کی یاد میں پریڈز کا انعقاد کرتا تھا جبکہ چین اب بھی یکم اکتوبر کو اپنے یوم جمہوریہ کی خوشی مناتا ہے جس روز بیجنگ میں بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوتی ہے۔

چینی فوج

چین شاید سب سے زیادہ رنگا رنگ اور مہنگی فوجی پریڈ کرنے والا دنیا کا ملک ہے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2015 میں ہونے والی پریڈ میں 12 ہزار فوجی دستوں، 129 طیاروں اور 500 سے زائد ٹینکس نے شرکت کی تھی۔

شمالی کوریا ایک اور مطلق العنان حکومت ہے جہاں فوجی پریڈز کی مضبوط روایت موجود ہے۔

ان میں سے ایک فوجی پریڈ رواں سال جنوری میں منعقد ہوئی تھی، جس میں شمالی کوریا کی فوج نے سمندر سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل کے ڈیزائن ماڈل کی نمائش کی جو ممکنہ طورپر اس کے ہتھیاروں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو گا۔

تاہم ایشیا میں ایسے جمہوری ممالک بھی ہیں جن کے دارالحکومت میں بڑی فوجی پریڈز منعقد ہوتی ہیں۔

انڈیا

مثال کے طورپر انڈیا کے یوم جمہوریہ پر ہر سال 26 جنوری کو نئی دہلی کے راج پتھ کے مقام پر فوجی پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ انڈیا کی یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب کا درجہ رکھتی ہے اور تین روز تک جاری رہتی ہے۔ پہلی بار یہ پریڈ 1950 میں ہوئی تھی اور اس وقت سے ہر سال منعقد ہوتی ہے۔

پاکستان بھی دنیا اور خطے کی بڑی طاقتوں کی طرح قومی دن پر پریڈ کا انعقاد کرتا ہے۔

پاکستانی فوج نے قیام پاکستان سے ہی ‘پاکستان ڈے پریڈ’ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ انڈیا بھی اس روایت پر عمل پیرا ہے جو ہر سال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ پر پریڈ منعقد کرتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1950 میں انڈین آئین بنا تھا۔ ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول انڈین روایت بھی ہماری طرح کی ہے۔`

پاکستان فوجی پریڈ

پاکستان میں فوجی پیریڈز کی روایت کیا ہے؟

23 مارچ 1940 کو لاہور کے مینار پاکستان پر منظور ہونے والی تاریخی قرارداد پاکستان کی یاد منانے کے علاوہ اس دن پاکستان کی مسلح افواج اپنی جنگی قوت اور طاقت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ ماضی میں پاکستانی فوج اس پریڈ میں مقامی طورپر تیار ہونے والے اپنے اسلحہ اور ہتھیاروں کی نمائش کرتی آئی ہے جن میں الخالد ٹینک اور شاہین و غوری جیسے بیلسٹک میزائل شامل ہیں۔

پاکستانی فوج فخر سے بیان کرتی ہے کہ 23 مارچ کو پریڈ میں اپنے جنگی ہتھیاروں کی نمائش کرنا کس طرح سے ایک روایت بن چکی ہے۔

سنہ 2019 میں ہونے والی پریڈ کی کوریج دکھاتے ہوئے مسلح افواج کے سرکاری مجلے ہفت روزہ حلال میں فخریہ طورپربتایا گیا کہ مشینی دستوں کی قیادت مقامی طورپر تیار کردہ ‘الخالد’ ، ‘الضرار’ اور ‘ٹی۔80 یوڈی’ ٹینکس نے کی جبکہ ان کے پیچھے دیگر مشینی دستے قطار باندھے رواں تھے۔

آرٹلری (توپ خانہ) دستوں میں 155 ایم ایم دھانے کی خودکار درمیانے درجے کی ہووٹزرز (ایم۔109 اے 2)، آٹھ انچ دھانے کی خود کار بھاری بندوقیں (ایم۔110)، ملٹی بیرل راکٹ لانچرز اور ملٹی لانچ راکٹ سسٹم بھی شامل تھے۔

آرمی ائیر ڈیفنس (بری فوج کا شعبہ ہوا بازی) کے دستوں میں ‘اوائیرلیکون گنز، جراف (زرافہ) ریڈارز، ایف ایم 90 میزائل، سکائی گارڈ (فضائی تحفظ کے) ریڈار اور (اے پی سی پر نصب) ‘آر بی ایس۔70’ میزائل شامل تھے۔ آرمی انجینئرز کا دستہ بھی پریڈ کا حصہ تھا۔ 314 اسالٹ انجینئرز بٹالین کا سازوسامان آرمڈ وہیکل لانچڈ برج (فولادی پُل بچھانے والی گاڑی)، ٹرول اینٹی مائن (بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے)، راکٹ ڈیلیوری مائن سسٹم، اسالٹ ٹریک وے، ربن برج، ‘اے۔ایم۔50’ برج، اور فیلڈ ٹریکس پر مشتمل تھا۔

پاکستان آرمی کی ٹیکٹیکل کمیونیکیشن اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی گاڑیاں اور الیکٹرانک وار فئیر کا سامان بھی اس دستے کا حصہ تھا۔

پاکستان پریڈ

میگزین میں مزید بتایا گیا کہ “سٹرٹیجک پلانز ڈویژن کے دستے میں بہت دلچسپی لی گئی۔ اس دستے کا حصہ بننے والے مقامی طورپر تیار کردہ ہتھیاروں کے نظام میں شاہین اول، شاہین سوئم اور نصر میزائل جبکہ ‘اَن۔مینڈ ایرئیل وہیکلز(ڈرون) براق’ اور ‘شاہپر’ شامل تھے۔”

سابق سیکریٹری دفاع ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ رواں برس پاکستان ڈے پریڈ کے پوری دنیا اورپاکستان کے لیے مجموعی طورپردو پیغامات ہیں: دہشت گردی کا دور ختم ہوا اور اب پاکستان مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔

آئیں پاکستان دیکھیں، یہ مستحکم ہے اور ہم نے دہشت گردی کو شکست دے دی ہے۔۔۔

دوسرا پیغام یہ ہے کہ یہ ایک بڑی فوج ہے جو قومی تعمیر میں شرکت کے لیے تیار ہے۔ یہ محض میری رائے نہیں، یہ آرمی میں اکثریت لوگوں کا نکتہ نظر ہے۔`

پاکستان ڈے پیریڈ کی سیاسی اور سٹریٹیجک اہمیت کیا ہے؟

دفاعی امور کے ماہر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تاریخ درحقیقت قرارداد پاکستان کی منظوری کی مناسبت سے اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان مسلم لیگ اسے ہر سال منایا کرتی تھی۔

انھوں نے کہا کہ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا اور اس دن کو یوم جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔

اگلے تین سال اسے یوم جمہوریہ کے طورپر منایاجاتا رہا پھر 8 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ حسن عسکری کے مطابق اس کے بعد آرمی کے لوگوں نے اسے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان کی منظوری کی مناسبت سے یوم پاکستان میں تبدیل کر دیا۔ ضیا دور کے دوران یوم پاکستان پر فوجی پریڈ ہونا ایک معمول بن گیا۔

پریڈ

ڈاکٹر عسکری کے مطابق اس فوجی پریڈ نے اب فوجی اور سٹرٹیجک اہمیت اختیار کرلی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نہ صرف اس قومی دن کو مناتے ہیں بلکہ اس روز اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔` انھوں نے بتایا کہ 1965 کی جنگ کے بعد چینی ہتھیار خاص طورپر لڑاکا طیارے پاکستان آئے اور انھیں 23 مارچ 1966 کی پریڈ میں پہلی بار نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔

ایک اور دفاعی ماہر نے کہا کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے غوری بیلسٹک میزائل مارچ 1998 میں پہلی بار نمائش کے لیے پیش کیے گئے تھے۔

سابق سیکریٹری دفاع خالد نعیم لودھی کے مطابق پاکستان ڈے پریڈ پرتین طرح کے لوگ توجہ کا محور ہوتے ہیں۔

سرفہرست ہمارے اپنے عوام ہوتے ہیں جنھیں پاکستانی فوج یہ بتانا چاہتی ہے کہ ملک کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس پہلو کو تیاری کے مظاہرے، موجود ہتھیاروں اور اعلیٰ جذبے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

دوسرے نمبر پر وہ دشمن ہوتا ہے جسے ہم اپنے مقامی طورپر تیار کردہ اسلحہ کے نظام، میزائل اور دیگرہتھیاروں کے مظاہرے سے آگاہ کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ بعض اوقات ہم اسلحہ سازی کے شعبے میں ہونے والی ترقی و پیش رفت کو بھی اس کے ذریعے سامنے لاتے ہیں جو عوامی سطح پر پہلے معلوم نہیں ہوتی۔

پریڈ کا تیسرا ہدف دوست ممالک ہوتے ہیں۔ ہم ان کے دستے پریڈ میں بلاتے ہیں، ہم مل کر تیار کردہ اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں اورانھیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاکستانی قوم ہمارے دفاع کے لیے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتی ہے۔

پاکستان ڈے پریڈ پر پاکستان میں تعینات ہر ملک کے سفیروں، فوجی اتاشیوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے اور سفارتی برادری نمائش کے لیے پیش کیے جانے والے اسلحے، تیاری اور پاکستانی فوجی دستوں کے جذبے میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp