پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کتنی مؤثر ہو گی؟


گیارہ جماعتی اپوزیشن الائنس کے 16 مارچ کو ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور باقی 9 جماعتوں کے درمیان استعفوں اور لانگ مارچ پر اختلاف رائے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر اتفاق کر لیا تھا۔ جبکہ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی طرف سے اس تجویز پر عمل کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔ آصف زرداری پارلیمان میں رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے خواہش مند ہیں۔ جب کہ باقی جماعتیں پارلیمانی جدوجہد کو فائدہ مند تصور نہیں کرتیں۔ وہ پارلیمنٹ کو بے وقعت قرار دیتی ہیں۔ پیپلز پارٹی لانگ مارچ کے پڑاؤ پر بھی تحفظات رکھتی ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں اختلافات کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو بھی قدرے سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ جو اپوزیشن کے لانگ مارچ سے کافی خوفزدہ تھی۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کا رویہ بڑا جا رہا نہ تھا۔ کیونکہ وہ مولانا غفور حیدری کی شکست سے بڑے برہم تھے۔ مولانا نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہوئے بغیر لانگ مارچ جو کہ 26 مارچ کو شروع ہونا تھا کی شدت سے مخالفت کردی۔ نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف جو سیاست میں اپنی کشتیاں پہلے ہی جلا چکے ہیں، نے اپنا وزن مولانا فضل الرحمان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے پرزور اصرار پر آصف زرداری کی طرف سے اس معاملے کو اپنی پارٹی کی سی ای سی کے سامنے رکھنے اور حتمی فیصلے کے لئے کچھ وقت مانگ لیا ہے لیکن آثار یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے موقف پر قائم رہے گی۔

دراصل آصف زرداری سیاست کے میدان کے بڑے گھاگ کھلاڑی ہیں۔ وہ بے نظیر بھٹو شہید کی جارحانہ سیاست کے بالکل مخالف راستے پر چلتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کو ماضی میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے کے بعد جو پریشانی اٹھانا پڑی تھی، وہ بھی ان کے ذہن میں موجود ہے۔ اب وہ پھونک پھونک کر اپنے قدم آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

بعض صحافیوں کے مطابق سینیٹ کے الیکشن کے بعد موجودہ حکومت کی رخصتی کے واضح آثار نمایاں ہو چکے تھے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین قومی اسمبلی عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ اراکین اس وقت سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی نے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے پراسرار خاموشی اختیار کر لی تھی۔ دراصل پیپلز پارٹی موجودہ اسمبلیوں کو برقرار رکھنے کی خواہش مند ہے۔ اسے اس بات کا خوف ہے کہ نئے انتخابات کی صورت میں کہیں سندھ بھی اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ اسی لئے آصف زرداری اپنے پتے سوچ سمجھ کر کھیلنا چاہتے ہیں۔

اب اس بات کا انتظار کرنا ہو گا کہ کیا پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد میں شامل رہتی ہے یا نہیں دونوں صورتوں میں ملکی سیاست پر کیا اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔ اور سیاسی میدان کے متحارب کھلاڑی اس صورتحال سے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد سے الگ ہو جاتی ہے تو یہ اس کے لئے بڑے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ کیونکہ اس طرح ایک طرف اس کی بارگیننگ پوزیشن قدرے کمزور ہو جائے گی اور دوسری طرف سیاسی طور پر بھی اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پیپلز پارٹی مرکز اور پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کی خواہش مند ہے مگر نون لیگ کی مدد کے بغیر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کو اس بات پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرنا ہو گا کہ پی ڈی ایم سے نکلنے یا رہنے کی صورت میں کیا مضمرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اصل مجبوری آصف زرداری اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف نیب کے مقدمات بھی ہیں، جن کی وجہ سے وہ کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ زرداری صاحب کی یہ بھی خواہش ہے کہ ان کے مقدمات اسلام آباد سے کراچی منتقل کر دیے جائیں۔

پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم میں رہ کر بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا اسلام آباد سے سینیٹر منتخب ہونا اپوزیشن اتحاد کا مرہون منت ہے۔ اس کے علاوہ اسے سندھ سے بھی ایک اضافی نشست حاصل ہوئی ہے۔ درحقیقت اب اس کی نظریں پنجاب کی سیاست پر تھیں اور وہ نون لیگ کی مدد سے بزدار سرکار کو ہٹا کر چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کے تخت پر بٹھانے کی خواہش مند تھی۔

اس طرح پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف تھی لیکن نواز شریف نے آصف زرداری کی اس خواہش پر پانی پھیرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ دراصل نواز شریف چوہدری پرویزالٰہی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے ڈھول کو اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ میاں صاحب کو اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ پیپلز پارٹی چوہدری برادران کے ساتھ مل کر مستقبل کی سیاست میں پنجاب کی حد تک نون لیگ کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ اسی لئے باوجود اس کے بلاول نے حمزہ شہباز کو رام کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن شریف خاندان نے پنجاب میں تبدیلی کے خلاف فیصلہ دے دیا۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف زرداری کی جا رہا نہ تقریر ان کی جھنجھلاہٹ کو صاف ظاہر کر رہی تھی۔ انہوں نے بعض سخت باتیں کہہ ڈالیں جس کا مریم نواز نے بڑا برا منایا۔ اجلاس میں شامل اپوزیشن کے دیگر قائدین بھی زرداری صاحب کی تقریر سن کر حیران رہ گئے۔ آصف زرداری نے سربراہی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنی خدمات کا ذکر کیا اور ساتھ ہی نواز شریف کو وطن واپس آ کر تحریک میں حصہ ڈالنے کی دعوت بھی دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو جیل بھرو تحریک میں شامل ہونا پڑے گا۔

جہاں تک نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کا تعلق ہے وہ اس وقت تک وطن واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے جب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا یقین نہ آ جائے۔ لیکن موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ نواز شریف کا چلنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں مریم نواز کو کسی شخصیت کی جانب سے دھمکی آمیز کال موصول ہوئی تھی۔ جس کے ردعمل میں میاں صاحب نے عسکری قیادت کو ایک دفعہ پھر تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ہے۔ لہٰذا اس تلخی کے ماحول میں ان کی واپسی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

میاں صاحب کا واضح طور پر ایک ہی نظریہ ہے جس سے وہ رتی برابر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ تین دفعہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی شراکت داری سے حکومت سازی آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات ہوگی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جونیئر پارٹنر بننے کے نقصانات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ میاں صاحب اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ فریق مخالف کو دفاعی پوزیشن پر لا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جائیں۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی کمزور حکومت کی وجہ سے بہت حد تک سیاسی اور انتظامی امور میں شامل ہو چکی ہے۔ اس کا ہدف اپوزیشن اتحاد کو کمزور کرنا ہے تاکہ حکومت کے لئے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہو سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا برقرار رہنا ہی اسٹیبلشمنٹ کی بقاء ہے۔ پیپلز پارٹی کی کمزور حکمت عملی بھی اس کے لئے بہت فائدے مند ثابت ہو رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی قیادت کو حوصلہ افزاء جواب نہ دیا تو باقی جماعتیں لانگ مارچ کی طرف ضرور جائیں گی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن بجٹ تک انتظار کرے۔ نون لیگ کے رانا ثناءاللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بڑی عید سے پہلے حکومت کی قربانی کا امکان ہے۔ اگر پی ڈی ایم مائنس پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھتی ہے تو اس کی کامیابی کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ اپوزیشن کی باقی جماعتیں نواز شریف کے بیانیے پر متحد بھی ہیں اور حکومت کے لئے زیادہ پریشان کن صورتحال پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments