مشورہ کس سے کرنا چاہیے؟


یہ واحد چیز ہے جو آج کے دور میں مفت اور ہر جگہ سے مل جاتی ہے۔ بادی النظر میں یہی سب سے اہم اور قیمتی بات ہے جو کسی بھی شخص کا مقدر سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ اسی لئے تو اسے امانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن مشورہ لینا اور دینا اب اتنا پیچیدہ عمل نہیں رہا ، سمجھ آئے یا نہ آئے، معاملے کی نزاکت کا فہم ہو یا نہ ہو ، سیاق و سباق کا ادراک کیے بنا اور نتائج کی سنگینی کو جانے بغیر، لچ فرائی کرنے کو بھی مشورے ہی کا نام دے دیا گیا ہے۔

اس کی بہترین مثال وہ حکایت ہے کہ گاؤں میں ایک آدمی کی گائے بیمار پڑ گئی تو بڑا پریشان ہوا ، سب وید اور حکیم کھنگال لیے لیکن معاملہ جوں کا توں رہا۔ تو کسی ’بھلے مانس’ نے مشورہ دیا کہ ایسا کر لو،  میں نے ابھی گائے کے ساتھ یہی کیا تھا۔ کرنے والے نے بتانے والے کے مطابق عمل کر دیا تو اگلے دن اپنی گائے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جا کے شکایت کی تو کہنے لگا کہ میری گائے بھی مر گئی تھی۔

ایسی ساری پرانی باتیں اب کتابوں ہی میں ملتی ہیں کہ مشورہ ایک امانت ہے ، اس امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ پورے خلوص اور نیک نیتی سے مشورہ دینا چاہیے۔ اور وہ سنہری دور لد گئے جب معاشرے کی تربیت کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ مساجد صرف نماز کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ ان میں اصلاح معاشرہ اور تربیت معاشرہ کا کام بھی بخوبی اور تسلی بخش طریقے سے انجام دیا جاتا تھا۔

مولا علی کرم اللہ وجہہ ایک محفل میں تشریف فرما تھے اور اصلاح و رہنمائی کے لئے ایسے ہی ایک موضوع پہ گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تین لوگوں سے مشورہ نہیں لینا چاہیے: اول بخیل شخص ، یہ ہمیشہ آپ کو کسی کی مدد سے روکے گا اور آپ کو اپنی ہی جیب یا تجوری بھرنے پہ دلائل دے گا۔ یہ خواہ مخواہ کی کنجوسی کی وکالت میں نہ خود پہ خرچ کرنے دے گا اور نہ دوسروں پہ۔ دوم بزدل ، یہ ہمیشہ آپ کو واہموں اور وسوسوں سے ڈرائے گا اور آپ کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دے گا۔ سوم حریص ، اس کا مطمح نظر ہمیشہ ہی لالچ ہو گا۔ نتیجتاً فریب ، دھوکہ دہی اور دغا بازی کے سوا اس ہاں سے کچھ نہیں ملے گا۔

دین اور اپنے اسلاف کی تعلیمات سے دوری محض اخروی کامیابی ہی سے دور نہیں کرتی بلکہ دنیاوی زندگی کے بہت سے معاملات میں بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ علم اور علم کے منبعے سے دوری سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اوپر بیان کیے گئے مکالمے میں جب مولا علی کرم اللہ وجہہ نے تین اشخاص کے بارے کہا تو وہیں مجلس میں موجود امام حسنؓ نے فرمایا کہ بابا چار بھی ہو سکتے ہیں تو تین اشخاص کے بارے بیان کرنے کے بعد مولا علی کرم اللہ وجہہ گویا ہوئے کہ فرزند چوتھے کے بارے میں آپ بتا دیں تو امام فرمانے لگے کہ جلدباز شخص سے بھی مشورہ نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments