کیا نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں؟



وطن عزیز میں ماشاء اللہ نوجوانوں کی آبادی کل آبادی کے ساٹھ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت حصول اقتدار کے لئے نوجوانوں کے جوش اور توانائی پر انحصار کرتی ہے۔

ہم آج جب اپنے تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر اپنے نوجوانوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے البتہ ان نوجوانوں کا دیدار ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے سر اپنے سمارٹ فونوں کی سکرین کی جانب جھکے ہوئے ہیں اور وہ سارے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔

ہمارے باکمال نوجوان جو آتش زیرپا رکھتے ہیں پلک جھپکتے ہی کامیابی کی سیڑھی کے آخری کنارے تک پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے حقوق ببانگ دہل طلب کرتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے وقت بغلوں میں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے ان ہونہار نوجوانوں کو اپنی قدر و قیمت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ان کے دوست فیس بک یا انسٹاگرام پر ان کی تصاویر کو پسند کرتے ہیں۔ ایک بھی ناپسندیدہ تبصرے سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ انہیں اپنے ہونے کی گواہی دوسروں کی تصدیق سے ملتی ہے۔ میری پسندیدہ شاعر یاسمین حمید نے کہا تھا کہ

جیسے گم ہو گئی شناخت مری
اب کوئی مجھ کو ڈھونڈتا بھی نہیں
شاید یہی کیفیت کچھ ہماری جدید نسل کی بھی ہے

ہمارے نوجوان جب گفتگو کرتے ہیں تو ان کے سطحی مطالعہ کی خبر ملتی ہے۔ ان کی گفتگو ذاتی جنت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اگر پیشہ وارانہ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہو تو ان کا مطمح نظر ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔ اپنے شعبے کے اسرار و رموز جاننے میں انہیں صرف واجبی سی دلچسپی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کا طرزعمل دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ بطخ کی مانند سطح آب پر تیرتے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ مچھلی کی طرح گہرے پانیوں کی غوطہ زنی انہیں مطلوب نہیں ہے۔

ہمارے موجود سیاسی و سماجی نظام کو تخلیق دینے والی قوتوں کے متعلق علم حاصل کرنے کی جستجو ہمارے نوجوانوں کو کم کم ہی ہے۔ وہ تو بس پارٹی کرنا چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی ہنگامے کو برپا کر کے زیست کی بے رنگی کو رنگدار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ لمحۂ موجود کا سرور حاصل کرنے کے لئے وہ حدود فراموشی کو بھی برا نہیں سمجھتے ہیں۔

ہمارے نواجوان دیرپا اور مستحکم رشتے بنانے پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے رشتے جب تک ان کے لئے خوش وقتی کا سبب بنتے ہیں ، وہ انہیں قبول کرتے ہیں اور جونہی رشتے ایثار و قربانی کا تقاضا کرتے ہیں وہ انہیں فی الفور جھٹک دیتے ہیں۔ ان کے سارے دوست بھی ہاں میں ہاں ملانے والے ہوتے ہیں۔ یاروں کی صحبت میں انہیں جہنم بھی جنت جیسی خوش گوار لگتی ہے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے انہیں صدیوں جیسے طویل محسوس ہوتے ہیں۔

یاسمین حمید پھر یاد آتی ہیں۔ شاید وہ نسل نو سے اپنے روابط کی بابت کچھ کہہ رہی ہیں کہ

ایسا خاموش بھی نہیں لگتا

اور کچھ منہ سے بولتا بھی نہیں
چاہتا ہے جواب بھی سارے

اور کچھ مجھ سے پوچھتا بھی نہیں
مسترد بھی کبھی نہیں کرتا

وہ مری بات مانتا بھی نہیں

غالب نے کہا تھا کہ شمع سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی ہے۔ زندگی کو باریک بینی سے سمجھنے والے اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ وہی خوشی پائیدار ہوتی ہے جو غم کے راستے پر سفر کرنے کے بعد ملتی ہے لیکن ہمارے ممدوح جدید  نسل کے مستقل بے چین اور پارے کی صفات کے حامل نوجوان خوشی کے طلب گار نہیں ہیں، وہ تو صرف لذت کے پیروکار ہیں۔ ہمارے نوجوان زندگی کو گھاٹی پر چڑھنے کا عمل نہیں سمجھتے ہیں بلکہ وہ تو شہنشاہ ظہیرالدین بابر کی طرح ہر دم یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ بابر یہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔

مرحوم محمد علی سدپارہ جیسے جفاکش کوہ پیما ہمارے نوجوانوں کے رول ماڈل نہیں ہیں۔ سالہا سال کی گمنامی کے اندر رہ کر جگر کو خون کر دینے والی محنت کو وہ نادانی اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ان کی ساری امیدیں تو سوشل میڈیا پر اچانک وائرل ہو جانے والی ویڈیو سے وابستہ ہیں۔ ان کے مقاصد جلیل نہیں ہیں جبکہ ان کے حوصلے قلیل ہیں۔ کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ الٹے پاؤں بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہمارے نوجوان ٹویٹ کر کے اپنے تمام فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی بھی تعلق کو نبھانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ہر انسانی رشتہ نشیب وفراز کے متعدد مراحل سے گزرتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو نشیبی علاقوں سے گزرنا اچھا نہیں لگتا وہ تو صرف بلندی سے بلندی کی جانب پرواز کرنے کے لئے اس دنیا میں اترے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ زندگی میں کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے بنیادوں کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ بنیادیں مطالعہ اور پھر مطالعے کی جگالی کرنے سے بنتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی نہ ختم ہونے والی فیڈ عارضی طور پر تو یقیناً ہوا کا تازہ جھونکا محسوس ہوتی ہے لیکن آخرکار جھوٹے نگوں کی مینا کاری ثابت ہوتی ہے۔

ہمارے روشن پیشاینوں والے نوجوانوں کو جلد یا بدیر سیلفی لیتے ہوئے یہ سمجھ آ جائے گی کہ بند مٹھی سے ریت کی مانند سب کچھ پھسل جاتا ہے اور کاغذی پھول خوشبو سے محروم ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments