چین اور عوام کی مرکزیت پر مبنی انسانی حقوق کے تحفظ کا معاملہ


چین ایک بڑا ملک ہے جہاں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں۔ ثقافتی تنوع کے اعتبار سے آپ اسے ایک خوبصورت گلدستہ قرار دے سکتے ہیں جس میں ہر رنگ کے پھول کی ایک الگ اہمیت ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں بسنے والی قومیتیں آپس میں اتفاق و اتحاد اور ہم آہنگی کی خوبصورت منظر کشی کرتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ چین کی تیز رفتار ترقی سے سامنے آنے والے خوشحالی کے ثمرات تک تمام شہریوں کی یکساں رسائی ہے۔ یقیناً اتنے بڑے ملک میں شہریوں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کسی چیلنج سے کم نہیں مگر چینی حکومت نے نہ صرف ملکی سطح پر اس شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی چین تحفظ انسانی حقوق میں پیش پیش ہے۔

چین نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 46 ویں اجلاس میں 100 سے زائد ممالک کی جانب سے ایک مشترکہ بیان دیا، جس میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وبائی صورتحال کے تناظر میں عوام کو مرکزی اہمیت دی جائے اور عوامی مفاد پر مبنی پر ردعمل کو آگے بڑھایا جائے۔

انسانی حقوق سے متعلق چین کا نقطۂ نظر انسانیت کو درپیش مشترکہ چیلنجوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی مشترکہ خواہشات اور توقعات کا آئینہ دار ہے۔ چین میں گورننس کے نظام کی ایک بڑی خوبی ہے کہ یہاں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں لوگوں کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو چینی عوام میں انتہائی پسندیدگی اور مقبولیت کی سند حاصل ہے۔

تحفظ انسانی حقوق کی بات کی جائے تو چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ انسانی حقوق دراصل لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں اور جمہوریت لوگوں کی مرضی کی عکاسی کرتی ہے لہٰذا انسانی حقوق کے تحفظ کا حتمی مقصد لوگوں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے، اسی بنیاد پر ہی عوام میں احساس خوشحالی، سلامتی اور طمانیت کے احساس کو فروغ دیا جائے گا۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ چین کی جانب سے کیا ایسے عملی اقدامات اپنائے گئے ہیں جن کی بناء پر انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ حقائق کے تناظر میں چین نے ابھی حال ہی میں ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران 770 ملین دیہی باشندوں کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے اور انہیں خوشحالی کی جانب لے جایا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی کامیابی ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی ہے۔ یہ دنیا کے لیے بھی عوامی فلاح و بہبود پر مبنی کامیاب گورننس کی عمدہ مثال ہے۔ یوں کروڑوں افراد کے خوشحالی کے بنیادی حق کا تحفظ کیا گیا ہے۔

یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے نہ صرف چینی عوام کی آمدن اور معاش کو فروغ ملا ہے بلکہ تعلیم، طب اور رہائش کے حقوق کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ چین نے دنیا کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا نظام تشکیل دیا ہے جو بنیادی طبی نگہداشت، صحت کی معیاری سہولیات، رہائشی الاؤنس اور سازگار رہائش کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ جہاں انسداد غربت کی تاریخ کا ایک بڑا معجزہ ہے ، وہاں اس سے عالمی حقوق انسانی کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا گیا ہے۔

چین نے ملک میں سنگین وبائی صورتحال میں بھی عوام پر مبنی فلسفے کو ترجیح دی اور اس کٹھن آزمائش کا کامیابی سے سامنا کیا۔ ملک گیر کوششوں کو متحرک کرتے ہوئے غیر معمولی پیمانے پر ایک ”لائف ریسکیو مشن“ سر انجام دیا، جس کی بدولت نہ صرف اپنے شہریوں کی زندگی اور صحت کے حقوق کا تحفظ کیا گیا بلکہ عالمی انسداد وبا تعاون میں بھی بڑے اور ذمہ دار ملک کا کردار ادا کیا گیا۔ چین نے اپنے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے ملک میں تیار شدہ ویکسین کو بھی عوامی مصنوعات میں ڈھال دیا ہے تاکہ عالمی ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک ویکسین تک با آسانی رسائی حاصل کر سکیں۔ ان ٹھوس اقدامات سے انسانی حقوق کے تحفظ میں چین کے عوام پر مبنی فلسفے کی واضح توثیق ہوتی ہے۔

چین کے ان اقدامات کو بین الاقوامی برادری بھی تسلیم کرتی ہے اور تمام عالمی فورمز بشمول اقوام متحدہ، انسانی حقوق سے متعلق امور پر چین کے موقف اور اقدامات کی حمایت کی جاتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ چند مغربی عناصر انسانی حقوق کی آڑ میں چین مخالف حربے اپناتے رہتے ہیں مگر مجموعی طور پر عالمی برادری تحفظ انسانی حقوق میں چین کے کردار کی معترف ہے۔

چند مغربی ممالک میں نفرت انگیز تقاریر، سفید فام بالادستی، نسلی امتیاز اور تارکین وطن و مہاجرین کے حقوق کی پامالیاں عام ہیں مگر المیہ یہی ہے کہ خود اپنی اصلاح کے بجائے دوسروں پر تنقید وتیرہ بن چکا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ اور احترام، انسانیت کا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے۔ جب تمام ممالک عدل و انصاف، کھلے پن اور جامعیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں گے اور باہمی تعاون کے ذریعے ترقی کو آگے بڑھائیں گے تب ہی تحفظ انسانی حقوق کو فروغ مل سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments