ڈاکٹر سلیمان: خطہ مالاکنڈ کا ابھرتا ہوا محقق


میرا بہت قریبی دوست اور کلاس فیلو پروفیسر ڈاکٹر جہاں بخت جس کا تعلق ضلع مالاکنڈ کے گاؤں خار سے ہے۔ آج کل زرعی یونیورسٹی پشاور اور سوات کا وائس چانسلر ہے۔ ہم دونوں نے جب ایم ایس سی ایگریکلچر مکمل کیا، میں نے نوکری شروع کی اور جہاں بخت نے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس نے پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی مفید اور مثبت کام شروع کیا جس کے بغیر تعلیم اور تحقیق کے شعبہ میں ترقی کرنا ناممکن ہے۔ یہ کام ہے تحقیق کر کے پھر اس کا ریسرچ پیپر بنا کر اس کو مختلف جرائد میں شائع کرانا ہے۔ جہاں بخت کے موجودہ مقام تک پہنچانے میں اس کے پی ایچ ڈی اور بہت ہی معروف ریسرچ فیلوشپ (فل برائٹ ) کے علاوہ اس کی تحقیق کے مختلف بین الاقوامی جرائد میں شائع ہونے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

چوں کہ ڈاکٹر جہاں میرا کلاس فیلو تھا تو میں بھی ہر وقت اس کے نقش قدم پر نہ چلنے کا افسوس کرتا تھا۔ اور عموماً یہ سوچتا کہ کتنی ہوشیاری اور کمال سے اس نے اپنے علم اور مہارتوں کو استعمال کیا لیکن اس گاؤں کے ایک دوسرے تحقیق کار ڈاکٹر سلیمان کے پروفائل، تحقیق اور پھر اس تحقیق کو بین الاقوامی جرائد میں شائع کرنے کے انداز کو جب پڑھا جس سے ڈاکٹر جہاں کے متعلق میری سوچ میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ یہ کہ ڈاکٹر جہاں کے پے در پے کامیابیوں میں اس کے گاؤں کی مٹی کا بھی بڑا کردار ہے۔

ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ڈاکٹر سلیمان میرے بہت ہی محترم دوست فقیر محمد صاحب کا بیٹا ہے۔ اس نے ابتدائی تعلیم کیمرج ہائی اسکول خار سے حاصل کی۔ پھر پشاور ماڈل اسکول اینڈ کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد اس نے کامسیٹ ایبٹ آباد سے الیکٹریکل انجنئیرنگ میں گریجویشن کی۔ اس ادارے سے انجنئیرنگ منیجمنٹ میں ماسٹر کیا۔ جیانگسو یونیورسٹی سے منیجمنٹ سائنسز این انجنیئرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے پریزیڈنشل سکالرشپ حاصل کیا۔ فنانس (Finance) ، ہیومن ریسورس (Human Resource) ، سپلائی چین (Supply Chain) اور انرجی اور انوائرنمنٹ (Energy & environment) منیجمنٹ سائنسز این انجنئیرنگ کی چار بڑی شاخیں ہیں اور پی ایچ ڈی کرنے والے کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سلیمان نے ان میں سے انرجی اور انوائرنمنٹ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ذہین اور وژن والے طالب علم کی طرح کورس کے انتخاب میں بین الاقوامی مسلمہ اصول کو بروئے کارلاتے ہوئے اس نے اپنی قابلیت، مضمون کے ساتھ واقفیت، دلچسپی، ملک کے ساتھ مطابقت اور مستقبل میں سبجیکٹ کے اسکوپ کے مطابق اپنے کورس کا انتخاب کیا۔

چوں کہ ماحولیاتی تغیر (Climate Change) آج کل بین الاقوامی سطح پر ایک اہم ایشو ہے اور تمام ترقیافتہ وترقی پذیرممالک اوربین الاقوامی فورمز اس کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں۔ تو پی ایچ ڈی کرنے اور مستقبل کی تحقیق کے لیے ماحولیات کا چننا سلیمان کی دوراندیشی اور حالات پر گہرے نظر رکھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر پی ایچ ڈی کے لیے موضوع (Topic) کے چناو میں اپنی بصارت پر پختگی کی مہراس وقت ثبت کی جب اس نے بیلٹ اینڈ روڈ ز اینیشیٹیو (Belt and Roads Initiatives) کو اپنی تحقیق کے لیے موزوں سمجھا کیوں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا پروجیکٹ ہے۔ یہ چین نے شروع کیا ہے اور دنیا کے تقریباً سو ممالک میں سے ہو کر گزرے گا۔ اور ہمارا China Pakistan Economic Corridor (CPEC) بھی اس پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ تو دنیا کے اس

بڑے منصوبے کا ماحول پر اثرات کو اپنی تحقیق کا مرکزی نقطہ بنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سلیمان کو بین الاقوامی اور ملکی مسائل اور مفادات کا پورا احساس ہے۔

ڈاکٹر سلیمان کے کام اور تحقیق نے مجھے اس وقت متوجہ کیا جب اس کا کویڈ 19 پر ایک بہت دل چسپ ریسرچ پیپر ایک بین الاقوامی جریدے Science Of The Total Environment میں شائع ہوا۔ صرف اس کا عنوان پڑھ کر آپ کو اس کے دلچسپ اور حیرت انگیز ہونے کا احساس ہو جائے گا۔ اس کا عنوان ہے۔ ” COVID 19 Pandemic and Environmental Pollution :A Blessing in Disguise؟“ ۔ (عالمی وبا کوویڈ 19 اور ماحولیاتی آلودگی: ایک رحمت) شروع میں مجھے عجیب سا لگا کہ کورونا سے روزانہ ہزاروں انسان مر رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو پرند چرند، مال مویشی، آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، جنگل، دریا اور پہاڑوں کی فکر لگی ہوئی ہے۔

پھر خیال آیا کہ سلیمان ایک پیشہ ور محقق ہے اور ہر اصلی پیشہ ور (Genuine Professional) کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ ہر مسئلہ کو اپنے پیشے کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اور بقول خوشحال خان خٹک ”ہر سہ چے پیدا دی نو خپل کار لرہ کنہ“ ( ہر انسان اس دنیا میں اپنے کام کے لیے پیدا ہوا ہے ) ۔

اس تحقیق میں اس نے بین الاقوامی معتبر اداروں National Aeronautics and Space Administration اور European and space agency کے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس عالمی وبا سے کاربن ڈائی اکسایڈ کے اخراج میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کم ہوئی ہے جو انسانی صحت کے لیے خوش آئند بات ہے۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تحقیق کا مخفی (Intrinsic) پیغام یہ ہے کہ آمد و رفت میں بے جا گاڑیوں کے استعمال کو کم کر کے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور انسان صحت افزاء ماحول میں سانس لے کر زیادہ بیماریوں سے نجات پا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس کے مختلف بین الاقوامی جرائد میں دوسرے ریسرچ پیپرز کا شائع ہونا ، اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر سلیمان کی تحقیق اور اس تحقیق کو پیش کرنے کا طریقہ کار معیاری اور سائنسی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ان جرائد میں پیپرز شائع ہونے کے لیے چند مسلمہ معیار ہیں اس پر پورا اترے بغیر تحقیق قابل اشاعت تصور نہیں کی جاتی۔

ڈاکٹر موصوف کو پی ایچ ڈی میں اچھے پرفارمنس اور معیاری تحقیق کی بدولت شینزن یونیورسٹی نے پوسٹ ڈائریکٹریٹ کی سکالرشپ کی درخواست کا پراسس تقریباً 90 فیصد مکمل کر لیا ہے جو ان کے علم اور تجربے کو اور وسیع کر کے ملک و قوم کے لیے ڈیلیور کرے گا۔

ہم مالاکنڈ کے لوگ اپنے سائنس دانوں، ڈاکٹروں، انجینیئروں، اساتذہ کرام، فن کاروں، سیاسی رہنماؤں اور بیوروکریٹس کی صرف تعریفیں نہیں کرتے ، ان سے اس علاقے کی بہبود کے لیے کچھ کر کے دکھانے کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کا جب بھی بس چلے ، مالاکنڈ میں اپنے معاشی اور سماجی ڈومین میں رہتے ہوئے یہاں کے ماحول کا تحقیقی جائزہ لے کر اس علاقے کی ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے آسان اور قابل عمل تجاویز پیش کریں تاکہ یہاں کے لوگوں کو صاف ستھری فضا میسر آ جائے اور معاشرہ خوشحالی کی طرف آگے بڑھے۔

نوٹ: اگر کورونا کے حوالے سے ڈاکٹر سلیمان کے اس جدید ریسرچ پیپر سے کسی کو دل چسپی ہے تو وہ مجھ سے اس واٹس اپ نمبر (+ 447463623358 ) پہ رابطہ کریں ، میں ان کو اس کی پی ڈی ایف کاپی بھیج دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments