ہمارے ٹی وی ڈرامے اور نوجوان خواتین



سکول کالج جاتی نوجوان لڑکیاں، گھر پر رہنے والی کنواری یا شادی شدہ خواتین خاص طور پر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین میں ہمارے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کا بہت چرچا ہوتا ہے۔ مواد جو ہم تک پہنچایا جا رہا ہوتا ہے اس کا ہماری انفرادی اور سماجی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ سکول کالج کی بچیاں بطور انٹرٹینمنٹ اس مواد کو دیکھتی ہیں اور ذہن ذرا کچے ہوتے ہیں تو اسی سب کو سچ مان کر اپنی زندگی کی تعریف بنا لیتی ہیں۔

غور کیا جائے تو ہر دوسرے ڈرامے کی کہانی کسی مڈل کلاس لڑکی پر ایک امیر لڑکے کے فدا ہو جانے کے گرد گھومتی ہے۔ امیر اور خوب صورت لڑکا جو اس معمولی لڑکی کی حیاء اور ادب و آداب پر مر مٹتا ہے، اس کے لیے دنیا جہاں سے ٹکر لینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ وہیں وہ لڑکی اول تا آخر گوپی بنی رہتی ہے اور اپنی آنکھیں، دماغ، دل اور زبان بند کر کے قسمت کے حوالے سب کچھ کر کے چلتی جاتی ہے۔ جہاں دل بھر آئے کھل کر رو لیتی ہے اور یوں ڈرامے کی ریٹنگ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ڈرامہ ہو جس میں دوسری شادی کا پٹاخہ نہ پھوڑا گیا ہو اور اس بات کو زہریلے انداز میں عورت پر تھوپا گیا نہ ہو کہ مرد ایسا ہی ہوتا ہے۔ ”دل مضطر“ کی مقبولیت کے بعد ایسے ڈراموں کی بارش ہی ہو گئی ہے کہ شوہر کسی اور عورت سے شادی رچا لیتا ہے اور پہلی بیوی صبر کی پیکر سب سہتی ہے۔ دوسری عورت گھٹیا نکل آتی ہے اور دماغ سے پیدل 30 سالہ مگر ذہنی لحاظ سے شیرخوار ننھا شوہر جس کا اپنا کوئی دماغ ہی نہیں اور کوئی بھی عورت جیسی چاہے پٹی پڑھا دے، وہ بیوی کی طرف واپس لوٹ آتا ہے اور صبر کی اصل تصویر بیوی جس کا عزت نفس سے کوئی تعلق ہی نہیں ، یوں اسے قبول کرتی ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

ہر ڈرامے میں یہ ڈائیلاگ لازمی ہے کہ ”عورت کی فطرت ہے کہ معاف کر دیتی ہے“ ۔ اس کے علاوہ اچھی عورت صرف گھریلو قسم کی ہی دکھائی جاتی ہے ، اس اچھے ہونے کی تعریف میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی عورت کو شامل کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی جاب کرتی عورت دکھائی بھی جائے تو فقط ذاتی یا گھریلو مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے دکھائی جاتی ہے۔

اب آ جاتے ہیں ایسے ڈراموں کے ہماری نوجوان لڑکیوں کے ذہنوں پر اثرات پر۔ کچے ذہنوں کی لڑکیاں ایسے شہزادے کے خواب میں بیٹھ جاتی ہیں جو ان کے لئے ساری دنیا سے لڑ جائے اور اپنے آپ کو اسی اچھی عورت کے دائرے میں فٹ کرنے لگتی ہیں جو ان ڈراموں میں کھینچا جاتا ہے۔ یوں لڑکیوں میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے والی، عزت نفس والی لڑکیاں بننے کی بجائے کسی ہیرو کی بیوی بننے کا شوق پیدا ہوتا ہے جس کے لئے انہیں دکھ، بے عزتی، کئی ٹن آنسو اور بے وفائی بھی برداشت کرنی پڑے تو کر گزریں گی۔

ہمارے ہاں کچھ اچھے ڈرامے بھی بنے مگر وہ فضول ڈراموں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ الیکٹرانک میڈیا کا مواد ہماری سوچ کو بنانے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے سو ہمیں ہر سطح پر اس مواد میں بہتری لانے کے لئے کام کرنا ہو گا تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کو فریب کی بنیاد پر اپنے خواب تعمیر کرنے سے بچا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments