قومی ریاستی بیانیہ اور سیاسی و معاشی استحکام


اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ 2021 ایک اہم قومی مکالمہ تھا۔ اس مکالمہ کا براہ راست تعلق ہماری داخلی وعلاقائی پالیسی، سیکورٹی معاملات، سیاسی ومعاشی استحکام سمیت پاک بھارت تعلقات سے جڑا ہوا تھا۔ اس کانفرنس سے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر معید یوسف اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف سیشنز سے خطاب کیا۔

یہ ڈائیلاگ ایک ایسے ماحول میں منعقد ہوا جب ہم عملی طور پر داخلی اور خارجی سطح پر مختلف چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کر کے اپنے قومی بیانیہ کو درست سمت دینے کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ ہم دنیا کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ہم نے صرف دہشت گردی کی جنگ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر مختلف سطح پر موجود علاقائی تنازعات کے خاتمے میں بھی مثبت کردار ادا کیا جا رہا ہے۔

اس اہم کانفرنس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا خطاب ایک کلیدی خطاب تھا۔ اس اہم خطاب کا تذکرہ داخلی و خارجی دونوں سطح پر ایک بڑے مباحثہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ عمومی طور پر بہت سے لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ پاکستان کی فوج براہ راست پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ ہے، لیکن جو بیانیہ فوج کے سربراہ نے پیش کیا ہے وہ اس سوچ کی نفی کرتا ہے کہ فوج پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی حامی نہیں۔ فوج کے سربراہ کا یہ نکتہ کافی اہمیت کا حامل ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان مثبت انداز میں آگے بڑھنے کے لیے ایک نئی سوچ اور فکر کو اجاگر کرتا ہے۔ فوج کے سربراہ کے بقول ”ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے تو ہمیں باہر کوئی توقعات اپنے حق میں نہیں رکھنی چاہیے۔“

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے کلیدی خطاب میں داخلی و خارجی سطح پر امن کی بحالی کے ایجنڈے، ہمسائیوں اور خطے کے ممالک سے جڑے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت سے گریزکرنے، خطہ میں تجارت اور آمد و رفت کی بہتری کو فروغ دینا، سرمایہ کاروں اور اقتصادی ترقی کے مراکز کے قیام کے ذریعے پائیدار ترقی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ یعنی پاکستان کی ریاست اپنی سیاسی ترجیحات میں معاشی ترقی کو داخلی اورعلاقائی سطح پر بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب تمام علاقائی ممالک تنازعات کو ختم کر کے تمام ممالک کے درمیان معاشی ترقی کے بیانیے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح ایک اہم نکتہ پاک بھارت تعلقات اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں بہتری یا سازگار ماحول کا بھی ہے۔ وزیراعظم اور فوجی سربراہ کے بقول تعلقات کی بحالی میں اہم نکتہ مقبوضہ کشمیر کا بھی ہے اور دونوں ممالک اس میں بہتری پیدا کر کے تعلقات کی بہتری میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

قومی ریاستی بیانیہ اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم جنگ جیسے مسائل کو ترجیح دے کر تنازعات کی سیاست کو بالادست نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی یہ اب ہمارا ایجنڈا ہے۔ فوج کے سربراہ کے بقول ہم اس وقت ہتھیاروں کی ڈور میں شامل نہیں اور اگر پاک بھارت تعلقات میں عملی سطح پر بہتری آتی ہے تو اس کا براہ راست اثر محض ان دو ممالک پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ خطہ کی سیاسی و معاشی استحکام سمیت مشرقی اور مغربی ایشیا کو بھی قریب لانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

اس میں ایک اہم نکتہ افغانستان میں امن کی بحالی ہے اور پاکستان نے افغان حکومت، امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معائدے کو یقینی بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا جس کا یقینی طور پر عالمی سطح پر بڑا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور جو بھی ایسے نکات تھے جو داخلی اور خارجی محاذ پر ہماری مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے تھے، ان کو قومی ترجیح کے طور پر نمٹایا گیا ہے۔ ان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ، ایف اے ٹی ایف میں دہشت گرد عناصر کی مالیاتی سپورٹ یا معاونت کا خاتمہ اور ایسی قانون سازی، پالیسی یا ادارہ کی سطح پر اصلاحات کا عمل درست قدم ہے۔

جنرل باجوہ نے عالمی دنیا سمیت علاقائی ممالک کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ پاکستان کو محض سی پیک کی آنکھ سے مت دیکھیں بلکہ پاکستان کو ایک بڑے عالمی و علاقائی تناظر میں دیکھا جائے۔ اسی طرح فوج کے سربراہ نے ٹھیک کہا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کا عمل محض کسی ایک ادارے یا فوج کا کام نہیں بلکہ اس میں مجموعی طور پر پورے معاشرے اور اس میں تمام طاقت ور فریقوں یا رائے سازی کرنے والے افراد اور اداروں کو آگے بڑھ کر قومی بیانیہ کی جنگ کا حصہ بننا ہو گا۔

وزیراعظم عمران خان پہلے ہی تواتر کے ساتھ بھارت کو یہ پیغام دے چکے ہیں اور اب بھی تسلسل سے دے رہے ہیں کہ بھارت معاملات کی درستگی میں پہل کرے۔ ان کے بقول بھارت ایک قدم آگے بڑھے ہم تین قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ علاقائی ممالک کے درمیان سیکورٹی ریاستوں کی تشکیل اور تنازعات کو الجھانے یا محض الزام تراشی یا ماضی کے ماتم سے باہر نکل کر خطہ کے عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی، محرومی کی سیاست کے خاتمے، جنگوں یا تنازعات پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے انسانی ترقی اور وسائل کی زیادہ سے زیادہ تقسیم اور تمام ممالک میں سماجی تعلقات یا رابطہ کاری کی بحالی کو ہی علاقائی سیاست کا اہم ایجنڈا ہونا چاہیے۔

بھارت سمیت جو لوگ بھی یہ دلیل دیتے ہیں کہ حالیہ تناظر میں بھارت سے تعلقات کی بحالی پاکستان کی بڑی مجبوری ہے اور وہ ایک بڑی مشکل کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کچھ برسوں سے تواتر کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی بات کر رہا ہے اور اس میں پاکستان پر عالمی دباؤ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عالمی دباؤ محض پاکستان پر ہے کیونکہ جب تک بھارت ایک بڑے ملک ہونے کے ناتے بڑا قدم نہیں اٹھائے گا معاملات میں ڈیڈ لاک بھی برقرار رہے گا۔ اگر پاکستان ماضی سے نکل کر مثبت انداز میں بھارت سے تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تو کیا ہماری سوچ اور فکر ماضی کے کھیل کو بنیاد بنا کر اسے خراب کرنا ہے یا واقعی ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف سب کو ایک بڑی پیش رفت کرنی چاہیے۔

علاقائی ترقی اور معاشی استحکام کی بنیاد اب معاشی خطوط پر اگر استوار کرنی ہے تو سب کو اپنے اپنے ماضی کے خول سے باہر نکلنا ہو گا اور مسائل کا حل روایتی یا فرسودہ حکمت عملی کی بجائے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں یا Out of Box حل کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہو گا جو سب کے مفاد میں ہو۔ فوج کے سربراہ نے جو گھر کو ٹھیک کرنے کی بات کی ہے تو اسے بھی پچھلے چند برسوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے تناظر میں ہماری مختلف حکمت عملیوں کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے۔

پاکستان نے دنیا کو بھی یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے داخلی و خارجی معاملات کی درستگی کی جنگ لڑ رہے ہیں بلکہ اس سوچ اور فکر کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ ساتھ سب سے تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں اور اس میں چند قدم آگے بڑھا اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اب دیکھنا ہو گا کہ اس سارے امن سے جڑے معاملات پر بھارت کس طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کیونکہ گیند اب بھارت کی کورٹ میں ہے۔ خود بھارت کے اندر بھی امن کے خواہاں نریندر مودی کی حکومت سے کچھ بڑے فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں جو پورے خطہ کی سیاست کو سیاسی و معاشی استحکام کی ایک نئی جہت دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments