23 مارچ : ایک تاریخ تین نام


23 مارچ کا دن ہماری تاریخ کا بڑا ہی دلچسپ دن ہے۔ پاکستان بننے سے قبل یہ دن ”یوم قرارداد پاکستان“ کے نام سے اسی دن منا یا جاتا تھا۔ جب ہم نے آئین بنایا تو یہ دن ”یوم جمہوریہ پاکستان“ کے نام سے منایا جانے لگا اور جب آئین کو منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا تو ایوب خان نے اسے ”یوم پاکستان“ کا نام دے دیا جو آج تک جاری ہے۔ اس لیے سمجھ نہیں آتی مبارک باد کس نام سے دیں۔ ”یوم قرارداد پاکستان“ ، ”یوم جمہوریہ پاکستان“ یا پھر ”یوم پاکستان“ ۔ یہ تینوں نام پڑے کیسے اس کو آج بیان کروں گا۔

جہاں تک پہلے نام کا تعلق ہے تو نام سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ 23 مارچ کی قرارداد کے حوالے سے اسے یاد کیا گیا۔ اب یہاں ایک سوال اٹھتا ہے جو ہمارے مدیر صاحب نے اپنی تازہ تحریر میں کیاکہ:

” 24 مارچ کو ) قرارداد) منظور ہوئی (تو ) 23 مارچ کو قرارداد کی منظوری کا دن کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟“

چونکہ ہمارے مدیر صاحب نے کسی کا نام لے کر سوال نہیں کیا لہذا کوئی بھی جواب دے سکتا ہے۔ ویسے ہمارے محترم صحافی بلال غوری صاحب کو بھی یہی اعتراض ہے جو انہوں نے اپنی تازہ وڈیو میں کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مایہ ناز مورخ ”مرحوم کمال خورشید عزیز“ نے بھی اپنی کتاب ”The Murder of History“ میں لکھا:

”No notice of the correct date has been taken by anyone in Pakistan، including the Government which makes the nation celebrate ’Pakistan Day‘ on the wrong day۔ I cannot think of any plausible explanation for such massive repudiation of an historical fact۔“ (Page 142 )

اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرارداد لاہور (قرارداد پاکستان) 24 مارچ 1940 کو منظور ہوئی 23 مارچ کو اسے صرف پیش کیا گیا تھا لیکن پھر بھی یوم پاکستان ”23 مارچ“ کو ہی منایا جانا چاہیے کیونکہ اس کا فیصلہ پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گیا تھا۔ نجانے کیوں ہمارے مورخین کی نگاہ اس جانب نہیں پڑھی۔ کیونکہ یہ قرارداد قائد اعظم کی صدارت میں مسلم لیگ نے اپنے ستائیسویں سہ روزہ سالانہ اجلاس میں پیش کی تو اس کی تاریخ کے تعین کا حق بھی انہی کے پاس ہے اور انہوں نے 23 مارچ کا ہی تعین کیا۔ کیو نکہ مسلم لیگ کا اجلاس سہ روزہ تھا تو 22، 23، 24 میں سے کوئی بھی تاریخ اختیار کی جا سکتی تھی۔ لہذا قائد اعظم کی زیر صدارت 22 فروری 1941 کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس نئی دہلی میں ہوا جس میں سر عبداللہ ہارون نے قرارداد پیش کی جو کہ منظور کر لی گئی۔ قرارداد یہ تھی:

”The Working Committee of the All India Muslim League resolved that the 23 rd of March every year should be observed all over India by the Muslim League organization for explaining the principles of the Lahore resolution popularly known as the Pakistan resolution as the only permanent and peaceful solution of India ’s constitutional problem۔“

یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی مخالف اور کانگریس کی اتحادی ”جمعیت علمائے ہند“ کے صدر مولانا حسین احمد نے جمعیت علمائے ہند کے سہ روزہ سالانہ اجلاس بمقام سہارنپور تاریخ 4، 5، 6 مئی 1945 کو قائد اعظم کے ایک بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:

” 23 مارچ کو پاکستان کی پانچھویں سالگرہ کے سلسلہ میں اپنے ایک مطبوعہ پیغام میں آپ (قائد اعظم) نے فرمایا“ (خطبات جمعیت علمائے ہند حصہ دوم صفحہ 813 )

ان تمام شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ 23 مارچ کو یوم پاکستان منانا سو فیصد صحیح فیصلہ ہے اور ایسا کرنے والے کو سرکاری مورخ کہنا اس کی توہین کرنا ہے۔ یہ تو ہو گیا محترم مدیر صاحب کے سوال کا جواب۔ لہذا ”23 مارچ 1941 سے 23 مارچ 1947“ تک ”یوم قرارداد پاکستان“ بنا کسی تعطیل کے منایا جاتا رہا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ”23 مارچ 1955“ تک اس دن کو کسی بھی نام سے نہیں منایا گیا لیکن اگلے سال یہ دن دوبارہ منایا گیا لیکن مختلف نام سے۔

وہ نام تھا ”یوم جمہوریہ پاکستان“ ۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ہندوستان 26 جنوری 1950 سے ہر سال یوم جمہوریہ مناتا تھا۔ کیونکہ اس تاریخ کو اس نے اپنے ملک میں دستور لاگو کیا تھا۔ ہم 6 سال لیٹ ضرور ہوئے لیکن آخر کار دستور بن گیا۔ 23 مارچ 1956 کو یہ لاگو ہو ا اور اسی تاریخ کو ہمارا یوم جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ جو سرکاری سطح پر تین سال تک منایا گیا۔ پھر ملک میں مارشل لاء لگ گیا اور آئین منسوخ کر دیا گیا۔

جب یہ ہو گیا تو اب جب 1959 آیا تو ایوب خان کے لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ اب کیا کیا جائے؟ کیونکہ آئین تو منسوخ ہو چکا لہذا یوم جمہوریہ کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس دن کو ختم بھی نہیں کر سکتے کیونکہ عوام چھٹی کی عادی ہے مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ پریشانی بڑھ گئی۔ جیسے جیسے 23 مارچ قریب آتا گیا پریشانی بڑھتی گئی۔ پھر نجانے کسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یا خود سے سوچ کر ایوب خان نے یہ فیصلہ کیا کہ 23 مارچ کو ”یوم پاکستان“ بنا دیا جائے۔

اس مقصد کے لیے ”11 مارچ 1959“ کو گزیٹ نکالا گیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کے 23 مارچ 1959 ”یوم پاکستان“ کے نام سے منایا جائے گا۔ سرکاری عمارتوں پر پرچم لہرایا جائے گا، ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی۔ مختلف میڈلز کا اجراء کیا گیا جو کہ 23 مارچ کو لگاے جائیں گے۔ جیسے ”ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، اورہلال قائداعظم وغیرہ“ ۔ اس کے بعد ”13 مارچ 1959“ کو فوجی اخبار ”ہلال“ میں یہ اشتہار آیا کہ کہ یوم پاکستان کی مناسبت سے اگر آپ کوئی اشتہار دینا چاہے تو ”20 مارچ“ تک کا وقت ہے اپ کے پاس۔

پھر ”22 مارچ 1959“ یعنی ایک دن پہلے اسی اخبار میں قوم کو بتایا گیا کہ کل یوم پاکستان ہے اور اس مناسبت سے کیا کیا پروگرام ہوں گی ں۔ اور پھر اگلے دن یعنی ”23 مارچ 1959“ کو ملک کا پہلایوم پاکستان منایا گیا جو آج تک جاری ہے۔ جس طرح اس وقت پریڈ ہوئی اسی طرح آج بھی ہوتی ہے ایوب خان نے کراچی کے پولوگراؤنڈ میں پریڈ کی سلامی لی۔ فوجی اخبار روزنامہ ہلال نے تو ”اپنی فوج“ کے نام سے اداریہ نکالاجس میں فوج کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابیں ملادیں اور آخر میں لکھا :

”یوم پاکستان پر ہر سال آپ کا فرض ہے کہ اپنی فوج کی زندگی کے اس پہلوؤں پر آپ غور کریں۔“
لہذا میں تو اپنا ”فرض“ ادا کرتے ہوئے ”غور“ کر رہا ہوں آپ بھی کیجیے۔ آخر میں دوسوال:

1۔ سب کچھ ہو گیا لیکن اس وقت یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ آخر یوم پاکستان منایا کیوں جا رہا ہے۔ ایسا کیوں؟

2۔ یوم پاکستان کی تقریبات پورے ملک میں ہوتی تھیں لیکن کسی تقریب میں مادر ملت کو نہیں دیکھا گیا۔ مادر ملت ہر سال یوم جمہوریہ پر بیان دیتی تھیں۔ آخری یوم جمہوریہ پر بھی دیا لیکن یوم پاکستان پر کبھی بھی ان کا کوئی بیان نہیں آیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ شاید آخری یوم جمہوریہ یعنی ”23 مارچ 1958“ کو ( مارشل لاء سے چند ماہ پہلے ) ان کے پیغام کی یہ لائنیں جواب دینے والوں کی کچھ مدد کردیں۔ مادر ملت نے کہا تھا:

” کوئی خفیہ ہاتھ ہے جو جمہوری طرز حکومت کی طرف آپ کی پیش قدمی کو روک رہا ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اس کا سراغ لگائیں اور اسے اپنے راستے سے ہٹادیں۔“ (مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح : تقاریر، پیغامات اور بیانات صفحہ 252 ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments