غلیظ امارت اور آم سے جڑی قومی محبت



ملتان میں عام کے باغات کی صفائی سے بہت سوں کے دل رنجیدہ ہیں۔ ہوں بھی کیوں نہ کہ معاملہ ہی ایسا غضب ناک ہے۔ کبھی دیکھا نہ سنا کہ کسی بادشاہ نے سونے کی کان جلا کر راکھ کر دی ہو، کسی ملک نے اپنے قومی اثاثے کسی سمندر میں بہا دیے ہوں؟ ہاں یہ ممکن ہے کوئی حاکم دیوانہ ہو اور ہوش کھو کر ایسے احکامات دے۔ دور حاضر میں یہ مثال ملبے سے اٹھتے دھوئیں کی مانند بھی ارض پاک سے اٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔

آم پاکستانی درآمدات میں اہم کردار ادا کرتا ہے، عام بکتا ہے تو لاکھوں گھروں کا چولہا جلتا ہے۔ زراعت پر منحصر ملک کی معیشت میں آم صرف پھلوں کا ہی نہیں برآمدات کا بھی بادشاہ تصور ہوتا ہے۔ صرف 2020 میں عالمی وبا کے باعث 80 ہزار میٹرک ٹن آم بیشتر ممالک میں فروخت ہو سکا جو مجموعی برآمدات میں گزشتہ برسوں کی بہ نسبت کم تھا۔ سال 2019 میں ریکارڈ ایک لاکھ تیس ہزار میٹرک ٹن آم دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کیا گیا۔ کورونا کے باوجود بھی آم نے نوے ملین ڈالر کما کر دیے۔ وہ الگ افسوس ناک پہلو ہے کہ آم کی برآمدات کو وہ عزت نہ دی جا سکی جس کا یہ پھل مستحق تھا۔

6000 ایکڑ پر محیط جو باغات انسانی سرمایہ دارانہ حرص کی نذر ہوئے ہیں ، نے سب کے دلوں پر افسردگی طاری کر رکھی ہے، دل رنجیدہ بھی ہیں اور نالاں بھی۔ افسوس کا سب سے پست مقام تو یہ رہا کہ کس قدر احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیوں نہ کر لیا جائے، سامراجی سرمایہ داروں کے آگے کسی کی چلی ہے نہ چل سکتی ہے۔ اس دوران حکومت سے امید رکھنا آم کی بیری پر کنکر برسانے کے برابر ہے جس سے نقصان درخت کا ہی ہو گا۔

اس تکرار میں عالمی ماحولیاتی تبدیلی یا امراء کے لئے نئی عالیشان بستی کی تیاری تو موجود ہے مگر آم سے رشتہ نظریاتی طور پر جذباتی بھی ہے۔ اگر انگوروں کی ہزاروں بیلوں کی تلفی کی خبر گونجتی تو شاید کوئی کان بھی نہ دھرتا، مگر آم تو قومی طور پر معتبر ہے۔ یہ نہیں کہ انگوروں کے ساتھ امتیاز کا رویہ رکھنا جائز ہے، امتیاز تو کہیں بھی برتا جائے وہاں جنگ لازم ہونی چاہیے۔ آم سے جڑی قومی وقار، معیشت، عالمی مانگ اور پسندیدگی ہی اس کو عوام کے اذہان میں ملی نوعیت کی برتری دلاتی ہے۔ یہ وہ پھل ہے جو قوم پرستی کی نہج پر وہ اہمیت رکھتا ہے جو مذہبی طور پر عجوہ کھجور کی ہے، اس قدر محترم ہے جب ہی تو دلوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔ آم اور ملتان کا رشتہ کتابوں، حکومتی اشتہاروں، بزرگوں کی باتوں اور بچوں کی کہانیوں کے ذریعے بتائے گئے ایسے مذہبی شہر کا ہے جیسے ہندومت کا رشتہ ویرانسی سے ہے۔

جو ظلم جدید استعماریت پر مبنی نظام اور اس کے ناخداؤں کے ہاتھوں ملتان میں پچاس لاکھ آم کے اشجار کے ساتھ ہوا ہے ، اگلی کئی دہائیوں تک اس پر ماتم ہو گا، اس ملبے پر چرائے خزانے سے بنے محلات ضرور ہوں گے مگر محنت اور درخت دوست انسانوں کی آہیں بھی اس مٹی میں رچی بسی رہیں گی۔

اپنے ہاتھ سے لگائے گئے پودوں اور درختوں سے محبت تو اسکول میں اردو کی دوئم، سوئم اور چہارم کی کتابوں میں سکھائی گئی تھی، تب کے یاد کیے گئے اسباق ہمیشہ کے لئے یادداشت میں ثبت ہو جاتے ہیں جو میٹھی یادوں کی طرح کبھی بھی گوشہ شعور میں ہوا کی طرح سرسراتے ہیں۔ بچپن کی یادیں مدھم شیڈ شیریں ٹیسٹ کی طرح ہوتی ہیں، یاد آنے پر دل جی تو اٹھتا ہے مگر یہ خیال کہ وہ سب لوٹ کر نہیں آ سکتا افسردگی کی لہر بھی دل میں دوڑا دیتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہر فوجی گھر میں ایک آم کا پیڑ ہوا کرتا تھا۔ پھل دار کوئی بھی شجر ہو، بچپن کی میٹھی یادوں میں زندہ رہتا ہے۔ درختوں سے محبت کرنا سکھانا اچھی روایات میں سے ہے، درخت ٹوٹے تو دل بھی اس کے مضبوط تنوں کے ہمراہ زمیں بوس ہوتا ہے، پتے ہی نہیں جھڑتے ، ساتھ میں انسان اور جانور بھی جھڑ جاتے ہیں، ایسی قوت رکھتے ہیں درخت۔

مجھے یاد ہے کہ راولپنڈی میں گھر کی کیاری میں، میں نے بھی ایک آم کا پودا لگایا تھا۔ گرمیوں کی دوپہر میں، چھٹی کے روز ہلکے پیلے رنگ کی گھٹلی کو میں نے دبایا، اس کو ہر روز پانی دیا، یہاں تلک کہ میری آنکھوں کے سامنے چھوٹے سے سر اٹھاتے چند پتوں سے باریک سا لمبا اور خوشبو دار پودا بن گیا۔ میں اس آم کے پودے کو اپنی پہلی محبت مانتی تھی۔ عمر چاہے آٹھ برس ہی کیوں نہ ہو، ہاتھ سے لگایا پودا اولاد کی سی انسیت بخشتا ہے۔

لیکن ایک روز کوئی جاننے والا لاہور سے آیا، اس نے میرا آم کا پودا دیکھ لیا، میں چوتھی جماعت میں تھی اور اس روز شہر میں بادل چھائے تھے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میری خالہ جو لاہور واپس جانے کو تھیں ، انہوں نے میری اور دوسرے بہن بھائیوں کی اسکول سے آدھی چھٹی کرائی اور گھر جاتے ہوئے بتلایا کہ فلاں شخص نے میرا آم کا پودا جڑ سمیت نکال لیا ہے۔

وہ میرے بچپن کے دیگر سانحات میں سے ایک سانحہ تھا۔ میں نے بہت احتجاج کیا کہ کوئی کیسے اتنا خود غرض بھی ہو سکتا ہے کہ ایک بچی کا پودا یوں چھین کر لے اڑے؟ کم از کم اردو کی کتابوں میں ایسی ہی کہانیاں درج ہوا کرتی تھیں اور ہماری بلند و بالا توقعات بھی انہی کی بابت وابستہ رہتیں۔ یہ واقعہ آج بھی یاد آتا ہے تو دل ویسے ہی افسردہ اور آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں۔ ایسا رشتہ ہوتا ہے انسان کا فطرت اور اشجار کے ساتھ۔ مجھے آج سترہ برس بعد بھی اپنے آم کے پیڑ سے ویسی ہی محبت ہے جو چوتھی جماعت میں تھی۔

آم جیسے قیمتی ملکی اثاثے کو اپنے ہاتھ سے تہس نہس کرنا گناہ کبیرہ اور جرم عظیم ہے۔ ایسی لالچی کارروائیاں اپنی ہی فوج پر میزائل داغنے کے برابر ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ جنتا چیخ چلا لیں ، بے معنی ہی رہے گا جیسے سامراجی سرمایہ دار خدا ہوں جن کی حاکمیت کی رو تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

یہ خیال کہ ایک نئی عالیشان بستی آباد اور وسیع کی جائے کہ چند امراء کا وہاں شان و شوکت اور ڈھٹائی سے قیام عمل میں آئے، کی خاطر اتنے بڑے پیمانے پر باغات کا وجود مٹانا زرعی اور پیداواری زمین کا مجرمانہ ضیاع ہی تو ہے۔ امراء کھیتوں پر محل بنا کر وہاں کی کیاریوں میں سبزیاں اگا کر باقیوں کو صحت افزاء کھانے کی تلقین کرتے ہیں، جن کے حصے کا پیسہ چراتے ہیں ، وسائل کی کمی کی بناء پر غیر معیاری ان کے طرز زندگی کا تنقیدی جائزہ لینے اور تمسخر بنانے سے باز نہیں آتے۔

ایک ملک جہاں کروڑوں غریب، بھوکے، بیماریوں سے لاچار افراد ہوں، لاکھوں بے گھر اور بے روزگار ہوں، وہاں انہی حق داروں سے دولت نوچ کر ملک کے معاشی اور فطرتی اثاثہ جات کی سرعام بولی لگے تو افسوس ہوتا ہے۔ آپ اس قدر امیر ہوں کہ ’ڈرٹی رچ‘ کے کھاتوں میں شمار ہوں، جس کا لغوی معنی اتنا ہی سادہ ہے جتنی کہ یہ انگریزی کی اصطلاح۔ ایسی غلیظ امارت کہ عام انسان ان کو دیکھ کر خوف سے دور ہٹ جائیں، حرص، بدعنوانی، حق خوری اور جرائم کی بنیاد پر ناچتی امارت کے جان نشین ہی اصل دشمن ہیں ان سب کے جن کے ہاتھ خالی اور دل اگلے ماہ کی تنخواہوں کی الجھنوں میں غلطاں۔

یہ کیسا نظام ہے کہ چند انسان اربوں کے ڈھیر پر براجمان ہیں اور کروڑوں انسان بے یار و مددگار ہیں۔ کروڑوں نچوڑنے والے ٹی وی پر آ کر گداگر بچوں اور عورتوں کے دس دس روپے تو رکوانے کی باتیں تو کرتے ہیں مگر ان سرگرم مافیاؤں پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھاتا جو ملک سے لوٹے گئے سیاہ پیسے کو انہی پوش آبادیوں میں لگا کر سفید کرتے ہیں۔ کوئی بھی انساں اتنا امیر نہیں ہو سکتا، یہ بہت سادہ سا حساب کا سوال ہے۔ آپ کروڑوں بناتے نہیں ہیں کہ زرعی زمینوں پر پوش بستیاں اور شاہانہ طرز زندگی اپنا سکیں، آپ کروڑوں چراتے ہیں۔ ان ظالموں کا نشانہ پہلے اس ملک کی عام عورت اور عام آدمی تھا، اب اس ملک کا آم بھی ان کی زد میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments