نیرنگی آدم کو کھلے دل سے قبول کیجیے


میں اپنے موبائل فون کی فوٹو گیلری میں یونہی سرفنگ کر رہی تھی کہ نظر ایک تصویر پر ٹک گئی۔ اس تصویر کو دیکھ کر بے اختیار مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔ ہم چار سہیلیاں ایک قطار میں کھڑے کیمرے کی آنکھ میں جھانکتے ہوئے مسکرا رہی تھیں۔

چاروں ایک دوسرے سے قطعی مختلف بلکہ ذرا غور سے دیکھیں تو دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں ایک خاص فراز و نزول کا مظاہرہ پائیں گے۔ یہ نیرنگی صرف مظاہر تک محدود نہیں بلکہ فروع مذہب، نظریات، مشاغل حتیٰ کہ عمروں میں بھی اچھا خاصہ تفاوت موجود ہے لیکن یہ تلون انس باہمی میں سد راہ نہیں جیسے پھلواری میں گل ہائے رنگ برنگ اپنی اپنی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں۔

آئیے اس تصویر میں موجود افراد سے تعارف کراتے ہیں۔ دائیں طرف سے شروع کرتے ہیں۔ سیاہ عبایہ اور اسکارف میں ملفوف یہ ہماری سہیلی نمبر ایک ہیں۔ ہر وقت شاداں و فرحاں، خوش باش۔ ایسا لگتا ہے وہ کسی یوٹوپیا ( Utopia) کی باسی ہیں جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کشمیر میں پچھلے کئی مہینوں سے لاک ڈاؤن مسلط ہے وہی لاک ڈاؤن جو کشمیریوں کی آہ کی صورت ساری دنیا پر لاگو ہو چکا ہے اور ساری دنیا اس سے پگلا چکی ہے۔

انہیں پاکستانی سیاست کے یک طرفہ تماشے میں کوئی دلچسپی ہے نہ عورت مارچ پر چھڑی بحث سے کوئی لینا دینا بلکہ عورت کی پیڑھ پر لکھے گئے کسی کالم پر ان کی رائے مانگی جائے تو کہتی ہیں کون سے کالم؟ میں نے تو کبھی پڑھے ہی نہیں۔ وہ دریدہ دہن نہیں مگر لگی لپٹی بھی نہیں رکھتیں۔ ہمیں جب اردو کی تنزلی کا غم کھاتا ہے تو ہنسی کی کھنک کے ساتھ کہتی ہیں ”زبان تو بس کمیونیکیشن کا ذریعہ ہے کیا ضروری ہے کہ مشکل مشکل الفاظ ہی بولے جائیں۔

ہم کہتے ہیں ”زبان کا وجود اور نمو اس کے استعمال سے مشروط ہے جو الفاظ استعمال نہیں ہوں گے وہ متروک اور معدوم ہو جائیں گے۔“

”تو کیا ہوگا“ وہ کندھے اچکا کر کہیں گی۔

”ذخیرہ الفاظ سکڑ جائے گا۔ فکر کو پیراہن الفاظ عطا کرتے ہیں۔ الفاظ کی قلت اظہار خیال کے عجز کا باعث بنے گی“

دقیق الفاظ کی بوچھاڑ پر وہ پھر ایک زوردار قہقہہ ماریں گی اور پھر کہیں گی
”تو کیا ہو گا“
ہمارے نزدیک وہ جان بوجھ کر ہمیں دق کرتی ہیں اور ہم بھنا کر کہتے ہیں:

”قواعد کے پیچ تو پہلے ہی ڈھیلے پڑنے لگے ہیں فصیح و بلیغ الفاظ کے جواہر اردو کے تاج سے گر پڑیں گے ، پھر انشاء پردازی میں مستعمل خوش نما الفاظ کے موتی جھڑ جائیں گے اور اس بے رونق تاج پر دوغلے لفظوں کے جھوٹے نگ اور بے تکی ترکیبوں کا ملمع چڑھا دیا جائے گا۔“

”بات تو سمجھ آ جائے گی“ ہنسی کا ایک اور پٹاخہ چھوٹے گا۔
”بات سمجھ ’میں‘ آ جائے گی۔ ہم قواعد کی ٹانگ سنبھالیں گے۔

”یوں تو بات سمجھنے کے لئے زبان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ زمانے کے اوائل میں تصویریں بنا کر مطمح نظر بیان کیا جاتا تھا ، اب بھی آئیکون اور ایموجیز کے ذریعے بات چیت ہو سکتی ہے یا پھر بین الاقوامی اشاروں کی زبان بھی اظہار خیال کے لیے کافی ہے۔ بھاڑ میں گئے زبان کے لشکارے اور ادیبوں کی مغز پاشی زندگی آسان اور تم خوش۔“

”خوش تو الحمدللہ میں ہمیشہ رہتی ہوں“ وہ کہیں گی۔

وہ سب سے زیادہ خوش اور جوشیلی دکھائی دیتی ہیں جب اپنے چھ اور نو سالہ بچوں کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ وہ ہمارے گروپ میں سب سے کم عمر ہیں ہم سب کے بچے عمر کے اس دور سے کب کے گزر چکے ہیں۔ بچے اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے جستجو، شوخی اور شرارت کے جن سنگ میل کو پھلانگتے ہیں ، وہ اب ہمارے لئے گزری منازل ہیں مگر ان کے لئے ہر روز ایک نئی دریافت ہے اور وہ اس سے خوب حظ اٹھاتی ہیں۔

بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، روزانہ کی دلچسپ باتیں، اسکول میں اسٹار ملنے یا کسی مقابلے میں جیت پر وہ بہت پرجوش ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں ، تب ہمیں لگتا ہے کہ ماضی میں ہم نے بہت سے خوشی کے لمحات کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

اب چلتے ہیں تصویر میں کھڑی اگلی سہیلی کی طرف۔ مشہور معیاری لان کے بڑے سے دوپٹے کو بانو قدسیہ کے انداز میں اوڑھے ہوئے میکپ سے بے نیاز سادہ اور پرکار۔ مینیکن کی طرح تنی ہوئی بے داغ جلد کو کسی کریم کی ضرورت نہیں مگر لپ اسٹک تو ہونی ہی چاہیے مگر مجال ہے کہ خاتون کسی کاسمیٹک کمپنی کا دھیلے کا بھلا کر دیں۔ پچھلی سالگرہ پر ہم نے انہیں ایک لپ اسٹک تحفتاً پیش کی تھی۔ ہماری دلجوئی کی خاطر وہ کبھی کبھار اس کو عزت افزائی بخش دیتی ہیں۔

والدین نے ان کا نام صائمہ (روزے دار) رکھا مگر خدا گواہ ہے وہ ہماری طرح صرف رمضان کے رمضان ہی روزے رکھتی ہیں۔ بس ان کا روزہ ہم سے دس پندرہ منٹ طویل ہوتا ہے۔ ایک بار ہم سب افطار پر مدعو تھے۔ میزبان نے ایک ٹیبل تاخیر سے افطار کرنے والوں کے لئے مختص کی تھی۔ ہماری سہیلی نمبر دو اس ٹیبل پر چلی گئیں۔ برابر والی خاتون نے سہیلی نمبر ایک سے کہا آپ بھی دس منٹ بعد افطار کریں گی۔

”میرا نام عائشہ ہے اور میرے والد کا نام عمر فاروق۔“ عائشہ نے بس اتنا کہا۔ ان کے سیدھے سادھے جواب میں بہت سے معنی پنہاں تھے۔

لوٹتے ہیں صائمہ کی طرف۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملے میں وہ درجہ اتم پر فائز ہیں۔ a friend in need is a friend indeed کا عملی نمونہ۔ مدد اتنی سادگی سے کرتی ہیں کہ احسان کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ ان کی ایک اور خوبی انہیں دل کے قریب لاتی ہے اور وہ ہے ان کی کمال تاب شنیدن۔ نہ صرف دوسروں کے دکھڑے وہ انتہائی صبر و استقامت سے سنتی ہیں بلکہ اپنی مصنفہ سہیلیوں کی نوشتہ وارداتیں بھی تحمل سے جھیلتی ہیں ، باوجود اس کے کہ کئی بار وہ اس بات کا اعادہ کر چکی ہیں کہ ان کی اردو فہمی کا معیار اخبار جہاں کی تین عورتیں تین کہانیاں سے زیادہ نہیں۔

درمیان کی تصویر ہماری ہے۔ درمیانہ نقوش اور قد و قامت، ہلکا پھلکا میکپ، میانہ رو لباس۔ دوپٹہ موجود مگر بانو قدسیہ کی طرح نہیں بلکہ قرۃ العین حیدر کی طرح۔ نہ دائیں بازو کی طرح قدامت پسند ، نہ بائیں بازو کی مانند آزاد خیال، بس بین بین۔

اب آتے ہیں اپنی تیسری سہیلی کی طرف۔ گوریوں سے زیادہ گوری، طرح دار، خوش لباس، بس ان تک پہنچتے پہنچتے دوپٹہ ہوا ہو گیا ہے۔

پوچھا جو ان سے آپ کا ’آنچل‘ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
(اکبر الہ ابادی سے معذرت)

اور عقل پہ پڑے اس پردے کی وجہ سے مرد عورتوں کے حقوق سمجھ نہیں پاتے۔ محترمہ جنگ آزادی نسواں کی جہادی ہیں۔ نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر حقوق نسواں کی پاسبانی کے لئے سرگرم۔ دامے درمے تو نہیں معلوم مگر قدمے سخنے پدر سری معاشرے کی بیخ کنی کرنے میں ہراول دستے میں شامل ہیں۔ فخر سے خود کو فیمینسٹ کہتی ہیں۔ اپنے آپ کو ٹیکے کہلوانا پسند کرتی ہیں۔ ان کا مشن مردوں کی زیادتیوں کے خلاف عورتوں میں قوت مدافعت پیدا کرنا ہے اور اس کے لئے وہ بھرپور خامہ فرسائی کرتی ہیں۔

بسیار نویس ہیں اور ان کی ہر تحریر پدر سری معاشرے کے مرد کی زیادتی پر لہو کے آنسوؤں سے خونچکاں ہوتی ہے۔ لیکن خون کے یہ آنسو صرف ان کی نوک قلم سے ہی گرتے ہیں نوک مژگاں سے نہیں۔ تکیہ اگر محرم راز ہو تو ہم نہیں جانتے ظاہراً تو وہ طاق میں رکھی سجی سجائی گڑیا دکھائی دیتی ہیں اور پلکوں پر ستارے ناچتے ہیں۔ جدید تراش کا لباس۔ سنہری کیے گئے تراشیدہ بال، امریکن برانڈ کی لپ اسٹک کے مرہون منت لب ہائے رنگیں جو بات بات پر کھل کے مسکراتے ہیں۔ اجنبی لوگوں کو بہت جلد اپنا بنانے میں ملکہ حاصل ہے۔ ایک بار مل کر دوبارہ ملنے کی ہوس پیدا کرنے میں سامری سے بڑھ کر جادوگر ہیں۔

تو جناب یہ تھی اس تصویر کی کہانی۔ مذہب کے تنوع، نظریاتی اختلاف اور تلون مزاجی کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر رہنے کا یہ نسخۂ کیمیا اگر سارا معاشرہ پا لے تو دیس سونا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments