کیا طاقتور ہونا اچھا نہیں ہے؟



طاقتور ہونا اگر اچھا نہیں ہوتا تو ہمارے وطن عزیز کی مقتدر قوتیں اپنے آئینی کردار تک محدود رہتیں اور طاقت کی راہداریوں پر اپنے پہرے دار بٹھانے کا تردد نہ کرتیں۔ طاقت سول ہو یا عسکری اس کی فطرت میں ارتکاز کا رجحان پایا جاتا ہے۔

ہمارے جمہوریت پسند دانشور خواہ مخواہ محکمۂ زراعت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ وطن عزیز زرعی ملک ہے اور اگر یہاں پر محکمہ زراعت پردے کے پیچھے رہ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں حرص و ہوا کے شکار سیاست دانوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے تو یہ درحقیقت ہمارے لیے مقام شکر ہے۔ ہمیں یہ قطعاً نہیں بھولنا چاہیے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔

جنہیں درویشی کا زعم ہے ، انہیں طاقت کے کھیل کا بارہواں کھلاڑی بن جانا چاہیے اور سفید ٹوپی پہن کر اور مصلے پر بیٹھ کر اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرنا چاہیے۔ البتہ جوحصول طاقت میں اس لیے دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کر سکیں انہیں طاقت و اقتدار کی شطرنج کے داؤ پیچ سیکھنے کو اپنا نصب العین بنانا ہو گا۔

امریکہ میں ایک ریسرچ کی گئی۔ نجی و سرکاری اداروں میں موجود لیڈروں اور مینیجروں کا مطالعہ کیا گیا۔ اس مطالعے کے نتیجے میں یہ کھل کر نظر آیا کہ جو لیڈر اور مینیجر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کے اراکین انہیں پسند کریں اور اس سے سروکار نہیں رکھتے ہیں کہ ان کی ٹیم کے اراکین اپنی ذمہ داریوں کی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں یا نہیں ، ایسے لیڈر اور مینیجر اپنی ترقی کے امکانات کا خود اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیتے ہیں۔

دوسری قسم کے لیڈر و مینیجر کام کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اپنی ٹیم کے اراکین سے ہر صورت اپنے اہداف حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

تیسری قسم کے لیڈر و مینیجرز ہر صورت اپنے لیے طاقت کے حصول کو یقینی بناتے ہیں اور ان کے ایوان اقتدار تک پہنچنے کے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنتا ہے ، اسے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے ہیں۔ وہ ترقی کی سیڑھی پر بڑی تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ایسے زیرک لیڈر و مینیجر اپنا ڈھول خود بجانے کے فن میں طاق ہوتے ہیں اور اپنے سے زیادہ طاقت وروں کی خوشنودی حاصل کر لینے کو اپنے لیے یقینی بناتے ہیں۔

حصول طاقت اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں ، اس کے لیے طاقت ہی آپ کے راستے کے کانٹوں کو صاف کرتی ہے۔ آپ اپنے سے زیادہ طاقت وروں کی نظروں میں اس وقت آتے ہیں جب آپ تابعداری کی طاقت سے مالا مال ہوں اور جو مزاج یار میں آئے اسے دل کی رضامندی سے قبول کرنے کی اداکاری کر سکیں۔

آپ کے والد ماجد اگر میاں محمد شریف صاحب جیسے دوراندیش ہوں تو پھر آپ کو برطانیہ سے طلب کر کے وزارت کا قلم دان سونپا جا سکتا ہے۔ اقتدار ملنے کے بعد اگر آپ شیر بن کر نہ دھاڑیں اور لومڑیوں کے قبیلے میں مطیع بن کر رہیں تو پھر اقتدار کی معراج بھی کچھ دور نہیں رہتی ہے۔

یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ حصول طاقت کے لیے ہر جائز ناجائز طریقے کو اختیار کرنا اخلاقی اعتبار سے ایک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن بے بسوں کی زندگی بھی کوئی قابل رشک نہیں ہوتی ہے۔ ایک ریسرچ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ لوگ جو اداروں میں نچلی پوزیشنز پر ہوتے ہیں وہ بالعموم بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ احکام کی بجا آوری کرتے کرتے ان کے دل کی کلی مرجھا جاتی ہے اور وہ انسان کم اور حکم کے بندے زیادہ بن جاتے ہیں۔ جب ہمارے کام سے متعلق فیصلے ہم سے اوپر والے کرتے ہیں اور ہماری رائے لیے بغیر کرتے ہیں تو پھر ہمیں بے بسی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اور مسلسل کڑھنے کی وجہ سے ہم عارضہ قلب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ارسطو نے کہا تھا کہ ریاستوں اور انسانوں کے دکھ اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک فلسفیوں کی تاج پوشی نہیں کر دی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں انسانوں کے دکھ کم کرنے میں واجبی سی دلچسپی ہے اور طالع آزماؤں کے گلے میں اقتدار کا ہار پہنانے میں خصوصی دلچسپی ہے۔

جب تک ہم جو جیتتا ہے اسے سکندر بناتے رہیں گے ، اس وقت تک سکندر فتح حاصل کرنے کے لئے حدود فراموشی کرتے رہیں گے اور ہر اخلاقی قدر کو پامال کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments