جب دریائے سوات و درال کی لہریں غضب ناک ہوئیں


شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

انسانی زندگی میں طرح طرح کے واقعات اور حادثات ہوتے رہتے ہیں جن میں بعض سانحات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بھولنے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز چھپا ہوتا ہے جس کو سمجھنے میں ہمیں صدیاں بیت جاتی ہے۔ خیر جو کچھ بھی ہوتا ہے اس میں انسان کی بھلائی ہوتی ہے کیونکہ جو خدا ماؤں سے بھی زیادہ بندے کو چاہتا ہے وہ اپنے ہی بندوں کو عذاب دے گا، ہرگز نہیں!

انسان کے ساتھ جو برا ہوتا ہے، وہ اس کے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ماضی میں ہم گر دیکھیں گے تو ہمیں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں اور خاندانوں کا ذکر ملے گا۔ بالکل اسی طرح سوات کے علاقے بحرین میں بھی زلزلے طالبانائزیشن اور سیلاب کی زد میں آ کر اہل کافی لوگوں نے مالی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ یعنی جو آفتیں آئیں خانہ خراب کر کے چلی گئی۔

Covid 19 کو ہی لیتے ہیں، یہ مصنوعی بیماری تھی یا قدرتی یہ اک الگ بحث ہے۔ البتہ اس بیماری نے انسان کے کاروبار کا بیڑا غرق کر دیا۔ ہر دوسرا بندا نفسیاتی ہو کر رہ گیا۔ Covid 19 کو ایک سال گزرنے کے باوجود بھی لوگ اپنی معمول کی زندگی گزارنے میں دشواری کا سامنا کر رہے ہیں۔ یعنی مذکورہ بالا شعر کی مانند حالت تھی۔ خالی خالی پڑا تھا سب کچھ۔

سوات میں زلزلہ، طالبان اور سیلاب نے ہمیں کافی مالی بحران کا شکار بنایا۔ ابھی ایک غضب سے نہیں نکلے تھے کہ دوسری جانب سے کسی تیسری آفت بے آ گھیر لیا۔ ہماری حالت بشیر صاحب کے مندرجہ ذیل شعر کے مصداق تھی

دل کی بستی پرانی دلی ہے
جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے

گیارہ جولائی دو ہزار دس کی صبح ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھیں لیکن گیارہ بارہ بجے کے قریب بارش کی بوندوں نے وزن پکڑنا شروع کر دیا اور پانی کے بہاؤ میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ 2010 کے سیلاب میں ہمارے غریب خانے کے بیٹھک میں ابھی کام ہو رہا تھا، کھڑکیاں سرے سے تھی ہی نہیں البتہ دروازے لگائے تھے۔ چھت پہ لینٹر کے بجائے چادریں ڈالے ہوئے تھے، وہ بھی اس طرح کہ وہاں اک گودام نما جگہ بھی نکل آئی تھی، راقم وہاں بیٹھ کر دریائے سوات جو کہ خونی دریا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی ظالم موجوں کو دیکھ رہا تھا۔

گھر کی دائیں طرف دریائے درال تھا جبکہ بائیں جانب دریائے سوات اپنی موج مستی میں جو چیز سامنے آتی اسے اپنا نوالہ بناتا۔ ادھر دریائے درال تھا کہ بھوت اور خطرناک جنوں کی سی آوازوں کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ دریائے درال میں سیلاب سے پہلے اتنے بڑے پتھر تھے کہ دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔

دریائے سوات چوروں کی طرح قیمتی سامان کو اپنے لپیٹ میں لے رہا تھا جبکہ درال بدمعاشوں کی طرح لوٹتا بھی تھا لیکن برابر ڈراتا دھمکاتا بھی رہا۔ جب کبھی دو ہزار دس کے سیلاب کا منظر یاد آتا ہے تو کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔ چونکہ ہم دریائے درال کا نظارہ اوپر پہاڑی سے دیکھتے تھے۔ اس وجہ سے ہمیں صاف دکھائی دیتا تھا کہ کس گھر سے کیا نکلا۔ جس گھر میں پانی داخل ہوتا ایسا لگتا کوئی انسان باری باری چن چن کر قیمتی سامان نکال رہا ہے۔ درال کی جانب دو تین گاڑیوں کو ایک درخت کے ساتھ باندھا تھا کہ نقصان زیادہ نہ ہو لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دریائے درال کی بے رحم موجود نے درخت کو ہی جڑ سے ہی اکھاڑ کر پھینک دیا۔

دونوں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں بدستور اضافہ ہو رہا تھا۔ دریائے سوات کے قریب جتنے ہوٹلز تھے، سب کو خالی کرایا گیا لیکن دوسری جانب درال تھا کہ بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ درال پہلے ہی کافی نقصان کر چکا تھا لیکن مزید اپنا راستے ہموار کر رہا تھا، وہ تو بھلا ہوا توروال پلازہ کا کہ محلہ ”ڈیگی چھام“ بچ گیا۔ توروال پلازہ سیلابی پانی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا گیا۔ چونکہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ راقم اس گودام نما جگہ پر بیٹھ کر ماسوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ دریائے سوات کالام کے مہنگے ہوٹلوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا تھا۔ غمی خوشی کے علاوہ یہ پہلا موقع تھا کہ بے شمار لوگ جنہیں ہم جانتے تک نہیں تھے، گھر میں داخل ہوتے گئے۔ چونکہ مہمان نوازی میں ہمارا شیوہ ہے۔ اس وجہ سے حسب توفیق جو کچھ ہو سکا مہمانوں کی خاطر داری کی۔

کچھ مقامی لوگ بھی تھے جو دریائے سوات اور درال دونوں کے بیچ شش و پنج میں مبتلا تھے۔ وہ بھی اپنا ہی گھر سمجھ کر تشریف لائے۔ ہم دونوں دریاؤں سے کافی دوری پر تھے لیکن ڈر تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے زیادہ مہمانوں کی وجہ سے پوری رات راقم نے بغیر فوم کے ایک سنگل صوفے پر بغیر کسی چادر اوڑھے گزار دی تھی۔ جب خدا خدا کر کے رات گزری تو صبح کیا دیکھتا ہوں کہ ہوٹل جو کہ بحرین کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں ان کا خانہ خراب ہو چکا ہے۔ سڑک نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ موسم سہانا سہانا تھا لیکن ہر چیز سے کچھ عجیب بو سی آ رہی تھی۔

”دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ“

بحرین ایسا اجڑا تھا کہ کوئی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب کی بار ہم زندہ بچیں گے بھی یا نہیں؟ بحرین کی خوب صورتی لوٹے گی بھی یا نہیں؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب شاید کی کسی کے پاس تھا۔ درال کی طرف گیا تو پتھروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا، جتنے گھر آباد تھے درال انہیں برباد کر کے گزر گیا تھا۔

دریائے سوات کی جانب بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہوٹلوں کے دوسرے تیسرے فلور میں ریت ہی ریت ہے۔ بازار کی سڑکوں پر اتنا ملبہ تھا کہ آپ اس پر چڑھ کر بآسانی کسی بھی ہوٹل کے دوسرے تیسرے فلور پر جا سکتے۔ سڑک پر پڑی ریت میں ہر وہ چیز موجود تھی جو دکانوں کے لیے لائی گئی تھی لیکن اپنی اصلی حالت کے بجائے کچھ اور شکل اختیار کر گئی تھی۔ سیلابی تھپیڑوں نے گاڑیوں کو ایسے پیسا ہوا تھا جیسے کسی نے چیونگ گم چبا کر پھینک دیا ہوں۔

بہر صورت یقین نہیں تھا کہ بحرین کی خوب صورتی دوبارہ لوٹ آئے گی۔ اشیاء خورونوش انمول ہو گئیں کیونکہ جو کچھ سوات کے علاقے بحرین میں تھا وہ یا تو دریائے سوات کی نذر ہو گیا یا درال اپنے ساتھ لے گیا تھا، مجبوراً جرے /چکڑی سے سودا سلف کندھوں پر اٹھا کر لانا پڑا۔ قیامت کا سماں تھا ہر شخص ایک ایک نوالے کے لئے ترس رہا تھا۔ ایک تو سیلاب نے ستیاناس کر دیا تھا اوپر سے قحط سالی نے بھی آ گھیرا تھا۔ اس وقت رئیس اسے سمجھا جاتا جو دو وقت کا کھانا کھاتا۔

بہر کیف نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ اہم پل جو رابطے کے حوالے سے لازمی تھے بدقسمتی سے ایک بھی نہیں بچا تھا۔ کہیں لکڑی کے سلیپر رکھے تو کہیں کسی دوسرے جگاڑ سے کام چلایا جا رہا تھا۔ لوگ بے گھر ہو گئے تھے، کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ بحرین میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ کوئی ہیلی کاپٹر اترتا۔ مہمانوں کی تعداد بے تحاشا تھی۔ ان کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کر دی گئی جس کے لیے ایک پہاڑی ”دوبئی“ پہ چڑھنا تھا۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا اور پاک فوج کی طرف سے بھرپور امداد فراہم کی گئی، تب آہستہ آہستہ لوگ معمول کی زندگی کی جانب لوٹنے لگے، لیکن 2020 کے سیلاب نے ایک بار پھر اہل بحرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ دریائے سوات نے بنا کسی زیادہ نقصان کے گزر گیا جبکہ درال نے ایک بار پھر ڈرا دھمکا کر اپنے بہاؤ میں کمی لائی جبکہ مالی نقصان دو ہزار دس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوا۔

شاید ہمیں اس شعر کی مانند زندگی گزارنی چاہیے :
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں

بس خدا سے دعا گو ہوں کہ ہم پہ خصوصی رحم و کرم فرما کہ اب مستقبل میں ہمیں دوبارہ ایسے حادثات کا سامنا کرنا پڑے۔ آمین الٰہی آمین، یارب العالمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments