عالی جاہ! کیری آن


عالی جاہ جب سے تشریف لائے ہیں تب سے اس ملک میں معجزے پر معجزہ ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بعض چیزوں کی تو ہیئت ہی تبدیل ہو گئی ہے، پوری دنیا کے بعض مسلمہ تصورات ہی تبدیل ہو کر رہ گئے، جبکہ سکہ بند ماہرین کی متعین کردہ بعض تعریفات تک منسوخ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کل ہی عالی جاہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے، جس کی وجہ سے پیسا کم اکٹھا ہوتا ہے اور اس وجہ سے ترقیاتی کام نہیں ہوتے۔

عالی جاہ کی جا بجا بکھری دانش سے یہ موتی چن کر میں تو ”حالا حال“ ہو گیا۔ واللہ! ایک رپورٹ یاد آ گئی، جس کی رو سے پاکستانی خوش رہنے میں دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے تھے۔ کسی نے سوال اٹھایا کہ جس ملک کی حالت یہ ہو وہاں کے ”باسی“ کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ سوال کرنے والے جاہل کیا جانیں کہ جس ملک میں عوام کو ہنسانے کی ذمہ داری اپنے عالی جاہ نے خود لی ہوئی ہو وہ ملک بھلا کیسے خوش نہیں رہے گا؟ اتنی مزاحیہ جگتیں اور وہ بھی انٹرنیشنل لیول پر مارتے ہیں کہ بندہ ہنس ہنس کر بے حال ہو جاتا ہے۔ جب کوئی ہو ہی ”بے حال“ جائے تو اسے کیا خبر کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، کیونکہ ان چیزوں کا تعلق ”حال“ کی سلامتی کے ساتھ ہے۔

ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری عوام نے عالی جاہ کو دی، لیکن عالی جاہ نے یہ کہہ کر کہ ”ٹیکس کم ہونے کے ذمہ دار عوام ہیں“ یہی ذمہ داری دوبارہ عوام کی جھولی میں ڈال دی، یعنی عالی جاہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ عوام سے کچھ ”لینے“ کی بجائے انہیں ”دینے“ کے قائل ہیں۔ اتنا دریا دل اور ”مست“ حاکم بھلا کسی اور ملک میں بھی ہے؟ عوام چونکہ ٹیکس نہیں دے رہے اس لئے ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے۔ جب ترقیاتی کام ہو ہی نہیں رہے تو افتتاح کس چیز کا ہو رہا ہے؟

اب اگر کسی چیز کا افتتاح نہیں ہو گا تو عالی جاہ بیکار تو بیٹھ نہیں سکتے، لہٰذا اس کا حل یہ تجویز کیا کہ پرانے دور کے منصوبوں کا از سر نو افتتاح کر دیا جائے۔ پس عالی جاہ ”چوروں“ کے افتتاح شدہ بیسیوں منصوبوں کا دوبارہ افتتاح کرتے پھر رہے ہیں۔ کچھ جاہل قسم کے انسان اس پر چیں بچیں ہو رہے ہیں، لیکن میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں۔ دور کیوں جائیں گھر کی بات ہی کریں تو کئی ایک کام ہیں، جن کا افتتاح اہل خانہ کو ”روز“ کرنا پڑتا ہے تو اتنے بڑے ملک میں اگر عالی جاہ نے کچھ منصوبوں کا افتتاح دوبارہ سے کر دیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے؟

ویسے بھی عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے ورنہ عالی جاہ ان منصوبوں کا کریڈٹ نہیں لے رہے اور یہ ممکن بھی نہیں، کیونکہ جہاں سرکاری ریکارڈ بھی ہو کہ یہ منصوبہ کس نے شروع کیا، فنڈ کتنا دیا، کس نے دیا اور کب دیا اور جہاں اس منصوبے کی افتتاح اور سنگ بنیاد کی خبریں اور ویڈیوز بھی میڈیا پر موجود ہوں وہاں بھلا یہ ممکن ہے کہ عالی جاہ کسی مشتہر استعمال شدہ چیز کا افتتاح کریں گے؟ لیکن اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟

اصل میں عالی جاہ اس بیانیے کی نفی کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں اپوزیشن سے چڑ ہے، کیونکہ جو بندہ اپوزیشن کے نقش قدم پر چل رہا ہو اور اپوزیشن کے منصوبے اسے اتنے پیارے ہوں وہ چن چن کر ان کا افتتاح کرنے وہاں جاتا ہو تو اس بندے کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے اپوزیشن سے نفرت ہے، ایک پروپیگنڈا ہی ہو سکتا ہے، بلکہ عالی جاہ کو تو اپوزیشن سے اتنی محبت ہے کہ کچھ مہربانوں کے ہاتھوں اپوزیشن کا تن ”مردہ“ ہو جانے کے بعد انہوں نے خود کو اپوزیشن کے رنگ میں رنگ کر اپنی اپوزیشن خود ہی کرنی شروع کر دی ہے اور ہر دو تین دن بعد پرانی تقریر کر کے عوام کو چینی چور، آٹا چور، میڈیسن مافیا اور مہنگائی وغیرہ بڑھنے کی وجوہات بتاتے رہتے ہیں۔

بہرحال بات چلی تھی ٹیکس کی کمی کی تو اسے بڑھانے کے لئے کابینہ نے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں تقریباً چھ روپے اضافہ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ بعض لوگوں نے اسے عوام پر ظلم قرار دیا ہے، لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں بجلی صرف نام کی بجلی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کی قیمت بھی اس کی سپیڈ کی طرح بڑھنی چاہیے۔ نام نور بھری ہو اور آنکھوں میں نور نہ ہو، اس سے بھونڈا مذاق بھی بھلا کوئی ہو گا؟ اسی لیے عالی جاہ نے بجلی کی سپیڈ اور قیمت کو ایک کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے تاکہ بجلی کو اس کا کھویا ہوا مقام مل جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ فقط اسی اضافے سے تقریباً 884 ارب روپے اکٹھے ہوں گے تو اس میں بھلا کس کا فائدہ ہو گا؟ پاکستان کا! اس میں عالی جاہ کا کوئی فائدہ نہیں، انہیں دولت کی کون سی کمی ہے؟ وہ تو ایک یونٹ کی قیمت ایک ہزار روپے سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں، لیکن پھر بھی اگر انہوں نے قیمت اڑتیس روپے مقرر کی ہے تو صرف عوام کی خاطر ورنہ وہ تو بجلی کی روشنی سے زیادہ ”روحونیات“ کی روشنی پھیلانے کے قائل ہیں، جس سے صرف گلیاں، محلے اور کمرے ہی نہیں، بلکہ انسان کا باطن بھی روشن ہوتا ہے اور جب انسان کا باطن روشن ہو جائے تو وہ بھوک، پیاس اور دوسری ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔

اگر عالی جاہ کی کوششوں سے پاکستان کے عوام نے اس ”روحونیاتی منزل“ کو پا لیا تو پھر اس ملک کے عوام کو ”آگے“ جانے سے کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔ جب عوام ”آگے“ چلے جائیں گے تو انہیں ”سکون“ بھی مل جائے۔ لہٰذا دشمنوں سے گزارش ہے کہ اس مبارک سفر میں روڑے نہ اٹکائیں! ہم پر رحم کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments