ویٹر اپنی خیریت چاہتے ہیں تو وکلا کی وردی مت پہنیں


چھبیس مارچ کو بلوچستان بار کونسل نے انتباہ عام جاری کیا اور تمام ہوٹل مالکان کو تنبیہ کی کہ جن ہوٹلوں کے عملے کی وردی وکلا کی وردی سے مشابہت رکھتی ہے وہ ”پندرہ دن کے اندر اندر اپنے سٹاف کی وردیاں تبدیل کرے وگرنہ ان کے خلاف بلوچستان بار کونسل قانونی کاراجوئی عمل میں لائے گی“ ۔

اگلے دن ہی یعنی ستائیس مارچ کو پنجاب بار کونسل کے سیکرٹری نے پنجاب کے چیف سیکرٹری کو خط لکھا۔ خط میں کہا گیا کہ بار کے علم میں آیا ہے کہ متعدد ہوٹلوں اور میرج ہالوں کا سٹاف وکلا کی وردی پہن رہا ہے۔ انگریزی میں الفاظ یوں ہیں

It came to our knowledge, many of the Hotels & Marriage Halls Staff is wearing the uniform of lawyers.

بتایا ہے کہ ایک لا گریجویٹ بھی اس وقت تک وکلا کی پراپر یونیفارم نہیں پہن سکتا جب تک وہ انٹری ٹیسٹ پاس کر کے چھے مہینے کا ٹریننگ پیریڈ مکمل نہ کر لے۔ مزید لکھا کہ ”کسی کو اجازت نہیں کہ وکلا کی وردی پہنے بجز وکلا کے۔ اگر کوئی بھی کسی بھی جگہ وکلا کی وردی پہنے پایا گیا تو مجھے واضح ہدایات ہیں کہ قانون کی متعلقہ شق کے تحت کارروائی شروع کر دوں۔“

چیف سیکرٹری پنجاب کو کہا گیا ہے کہ اس لیے آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ تمام اضلاع میں ایک سرکلر جاری کر دیں کہ اگر کسی ہوٹل یا ایونٹ ہال کا عملہ وکلا کی وردی پہنے ہوئے ہے تو اسے فوراً تبدیل کر لے۔

آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور باطل سے ڈرتے ہیں۔ اس معاملے میں وکلا حق پر ہیں۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے کپڑے پہنے۔ آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کسی صبح اٹھیں اور دیکھیں کہ آپ کے کپڑے کوئی اور پہن کر چلا گیا ہے تو آپ کو کتنا غصہ آئے گا۔ جو لوگ ہوسٹل میں رہے ہیں وہ اس غم اور غصے سے خوب آگاہ ہیں۔ بفرض محال آپ کے پاس ایک ہی جوڑا ہو تو آپ کو کام سے چھٹی کرنی پڑے گی۔

جہاں تک ہوٹلوں کے عملے کا تعلق ہے تو وہ صدیوں سے یہ غلط کام کرتے آ رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہم جیسے سادہ آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سیاہ کوٹ پینٹ اور سفید شرٹ پہنے ہوئے یہ آدمی ایک عام وکیل ہے یا شریف شہری۔ اکثر اوقات تو یہ اتنے خوش لباس اور ہینڈسم ہوتے ہیں کہ ہوٹل کے گاہکوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

حسن ظن رکھتے ہوئے ہم تو یہ بھی کہیں گے کہ پنجاب بار کونسل نے یہ پابندی شہریوں کے مفاد میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہر چند مہینے بعد وکلا عوامی حقوق کے تحفظ اور قانون کی سربلندی کے لیے کوئی کام کر دیتے ہیں اور پھر پولیس ان سے بدمعاشی پر اتر آتی ہے۔ لاہور کارڈیالوجی ہسپتال پر ڈاکٹروں کے خلاف وکلا کی قانونی کارروائی کے بعد لاہور میں ہر وکیل اور وکیل نما شخص کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی تھی۔ ادھر اسلام آباد میں ابھی چند ہفتے قبل ہی ہائی کورٹ پر وکلا نے قانونی کارروائی کی تو اس کے بعد وہاں کے وکلا کی شامت آ گئی۔ ہمارے عزیز نقیب تارن بتاتے ہیں کہ وکلا تحریک کے دوران ان کے محلے کے نائی کو پولیس نے محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا تھا کہ اس نے کالا کوٹ پہن رکھا تھا۔ ہماری رائے میں وکلا محض اس قسم کے تشدد اور غنڈہ گردی سے عام شہریوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

وکلا کے ساتھ ہم تو کھڑے ہیں مگر تعجب اس بات پر ہوا کہ پنجاب بار کونسل سے لاہور ہائی کورٹ متفق نہیں۔ سنہ 2015 میں لاہور کے ایک وکیل ایڈووکیٹ سرفراز احمد نے پیٹیشن دائر کی کہ غیر متعلقہ افراد کو وکلا کی وردی پہننے سے منع کیا جائے۔ معزز جج صاحب نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اس پر انہوں نے اپیل کی جسے ڈویژن بینچ نے سنا۔ وکیل صاحب نے کہا کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ کو کہا تھا کہ وہ ریستورانوں اور ہوٹلوں کے عملے، خاص طور پر ویٹروں کو ویسا کالا سوٹ پہننے سے روکے جیسا وکیل عدالت میں پہنتے ہیں۔ لیکن سنگل بینچ نے ان کی درخواست کو غلط سمجھا اور یہ فرض کر کے درخواست مسترد کر دی کہ وہ تمام شہریوں کو یہ وکلائی وردی پہننے سے روکنا چاہتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالت کسی شہری کو ہدایت جاری نہیں کر سکتی کہ اسے کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو لباس جج اور وکیل پہنتے ہیں وہ نہ تو کسی قسم کا پیشہ ورانہ لباس ہے اور نہ ہی پولیس یا مسلح افواج جیسی وردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ وردی قانون اور ضوابط کے تحت تحفظ رکھتی ہے۔ وکلا اور ججوں کا ڈریس کوڈ عام لباس ہے اور اس میں کوئی خاص علامت نہیں اور اس وجہ سے اسے یونیفارم نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسے کسی قانون کا تحفظ حاصل نہیں۔ شہریوں کو نہ کالے سوٹ پہننے سے نہیں روکا جا سکتا خواہ وہ دفتر میں کام کریں، ہوٹل میں، یا کسی سیمینار یا ڈنر پارٹی میں شرکت کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ ایسی کوئی بھی پابندی عملی طور پر نہ صرف لاگو نہیں کی جا سکتی بلکہ عقل سلیم کے بھی خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکیل صاحب انہیں قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کے حقوق کو پائمال کیا جا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ ہمیں یہ جان کر افسوس ہی ہوا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وکلا وردی نہیں ایک عام لباس پہنتے ہیں جسے پہننے سے عام شہریوں بشمول بیروں کو نہیں روکا جا سکتا۔ خدشہ ہے کہ کہیں پنجاب کے چیف سیکرٹری بھی لاہور ہائی کورٹ کے اسی فیصلے کی آڑ لے کر یہ نہ کہہ دیں کہ ایسی پابندی عقل سلیم یعنی کامن سینس کے خلاف ہے اور اسے انفورس کرنا ناممکن۔

ہم نے وکلا کی وردی کے متعلق جاننے کے لیے گوگل کیا تو پتہ چلا کہ وکیل کی وردی میں کالی پینٹ، کالا کوٹ، سفید شرٹ، گلے کے گرد سفید بینڈ اور اوپر کالا گاؤن ہونا چاہیے۔ پنجاب بار کونسل کو تو خیر پتہ چل گیا لیکن ہماری نظر سے ابھی تک ایسا کوئی ویٹر نہیں گزرا جو یوں کالا گاؤن پہنے کھانا سرو کر رہا ہو۔ ایسا کرتے ہوئے وہ لازماً اپنی کھلی ڈھیلی آستینوں کو پلیٹوں اور قابوں میں موجود کھانے میں ڈبوتا ہو گا۔ یہ نہ صرف حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ کراہت انگیز بھی ہے۔

بہرحال وکلا کو بھی درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ویٹر کبھی کبھار ان کے کپڑے پہن کر کام پر چلے بھی جائیں تو صبر کرنا بہتر ہے۔ ورنہ دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی تو ممکن ہے کہ ویٹر اپنے کالے کپڑے بدل لیں مگر ان میں سے کوئی بدباطن نکلا تو اپنی کالی فطرت ہرگز نہیں بدلے گا۔ اس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم ایک واقعہ عرض کیے دیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک ریستوران میں چند معزز افراد گئے جو شرارت کے موڈ میں تھے۔ ویٹر نے انہیں مینو پیش کیا اور چلا گیا۔ معززین نے کھانا منتخب کرنے کے بعد مینو کو بیچ میں سے کھول کر تھوکا اور فولڈ کر کے میز پر رکھ دیا۔ ویٹر آیا تو انہوں نے اسے آرڈر نوٹ کروایا۔ کھانا وغیرہ کھا کر اور مشروبات پی کر وہ فارغ ہوئے تو انہوں نے ویٹر کو بل لانے کا کہا۔ بل کی ادائیگی کے بعد معززین میں سے ایک نے سو روپے کے نوٹ پر تھوکا اور اسے فولڈ کر کے ویٹر کو تھما دیا۔ ویٹر کا رنگ فق ہو گیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ معززین میں سے ایک کو افسوس سا ہوا اور اس نے معذرت کی۔ ویٹر نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور کہنے لگا ”سر ہماری دشمنی کب تک چلتی رہے گی۔ کب یہ سلسلہ تھمے گا۔ کب تک آپ معززین ہمارے مینو اور ہماری ٹپ پر تھوکتے رہیں گے اور کب تک ہم آپ کے ڈرنک میں سُوسُو کرتے رہیں گے“ ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پہلے راؤنڈ میں وکلا فاتح رہیں کیونکہ وہ حق پر ہیں، مگر جیسا کہ ہم خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کوئی ویٹر ظالم ہوا تو اس کے ہوٹل یا میرج ہال میں وردی پہنے وکلا ٹینشن میں ہی رہیں گے کہ کب تک یہ دشمنی چلتی رہے گی، کب یہ سلسلہ تھمے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments