سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے ہچکچاتی کیوں ہیں؟


خلوت نشینی اور شاہانہ درویشی میرے مزاج کا حصہ ہے ، اس لئے حلقہ یاراں بھی ہمیشہ سے محدود ہی رہا ہے لیکن مجلس باش احباب کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ہوا یوں کہ گزشتہ ہفتے اپنے حلقہ کے مقامی ایم این اے میاں نجیب الدین اویسی (موصوف کالم نگار بھی ہیں) کی معیت میں ایک تقریب کی شرکت کے لئے سفر کرنے کا موقع ملا تو دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ہمارے نظام کی خامی دیکھو کہ ایک رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا اصل کام تو قانون سازی ہے لیکن اس کو کن کاموں میں الجھا دیا جاتا ہے؟

گلی پکی کروانی ہو یا کسی محلے میں غلط جگہ پر موجود پول کو سیدھا کروانا ہو، کسی درجۂ چہارم کی نشست کی تعیناتی ہو یا آپ کا گیس میٹر نہ لگ رہا ہو تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے ڈیرے پر جائیں اور اس سے ایک عدد سفارشی فون لازمی کروائیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر پولیس ایک بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل پکڑ لیتی ہے تو اس کو چھڑوانے کے لئے بھی ایک ایم پی اے کو فون کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ اس کے ووٹر اور سپورٹر کی فرمائش اور عزت کا سوال ہوتا ہے۔

مقامی سیاست میں اپنی تھوڑی بہت شمولیت سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ ایک کامیاب ایم پی اے عوام کا وہ خادم ہوتا ہے جو ان کا ہر جائز اور ناجائز کام کرے، پولیس اور انٹظامیہ کے ساتھ ان کے جائز اور ناجائز مطالبات کے لئے نہ صرف ایک جنگ کرے بلکہ ان کی فرمائشوں کو صدق دل سے پوری کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے ہی ایک نجی محفل میں، میرے ایک دوست مقامی سیاست دان نے مجھے سیاست کے گر سکھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف امام مسجد اور مومنین اسلام کے ووٹ نہیں ملتے بلکہ معاشرے کی تمام کالی بھیڑیں کسی نہ کسی سیاسی امیدوار کی صرف اس لئے حمایت پہ کمر بستہ ہوتی ہیں کہ کل کلاں جب یہی امیدوار اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوگا تو ہم ان سے جائز اور ناجائز کام نکلوائیں گے۔

میں نے مقننہ کے ایوان میں براجمان اعلیٰ ہستیوں کی بندر بانٹ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے کہ کس طرح صرف فرد واحد کو ایک گیس کا میٹر دینے کے لئے مین لائن پہ والوو لگوا کر کنکشن دیا گیا، یا کسی ایک فرد کے ڈیرے تک کارپٹ سڑک پہنچانے کے لئے کروڑوں کا بجٹ خرچ کیا گیا، ہوا یوں کہ اگلے الیکشن میں وہ مخالف امیدوار کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔

کسی بھی جمہوریت پسند ملک کی عمارت مقننہ، بیورروکریسی اور عدلیہ جیسے اہم اداروں کے سر پر کھڑی ہوتی ہے۔ امریکہ کو دیکھ لیں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سیاسی نظام ان کے اس بنیادی قانون کے ذریعے طے کیا گیا ہے ، جو 1787ء کے اوائل میں اپنایا گیا تھا۔ اس آئین کے مطابق وفاقی حکومت تین آزاد اداروں مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر ادارہ خودمختار اور آزاد ہے اور اپنے اپنے افعال بخوبی سرانجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے اس ملک کی جمہوریت کو کوئی بھی فرد یا جماعت ڈی ریل نہیں کر سکتی۔

ملک میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہیں اس میں عدلیہ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کو صرف بیورکریسی یعنی ایگزیکٹو دیکھتے ہیں جو براہ راست صدر مملکت کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی نظام میں صدر مملکت وہ ربڑ کی مہر ہے جو صرف یوم پاکستان کا مارچ پریڈ دیکھنے یا اعلیٰ سول اعزازات تقسیم کرنے کے لئے باہر آتا ہے یا پھر ہم اسے جشن آزادی کے دن قومی ترانہ سنتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص اہل سیاست کو ہر برائی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ملک میں مہنگائی ہو یا بے روزگاری، بے امنی ہو یا کوئی ترقیاتی کام نہ ہو رہا ہو، عوام کا پہلا پتھر ہمیشہ عوامی نمائندوں کی طرف ہی اٹھتا ہے، حالانکہ ترقی یافتہ معاشرے میں یہ تمام کام قانون ساز اداروں (یعنی قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین) کے ذمہ نہیں ہے بلکہ تمام تر ذمہ ایگزیکٹو یعنی انتظامیہ (بیوروکریسی) کی ہے جس نے ہمیشہ ایئرکندیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر کرسیوں کے نیچے فائلیں دبانے کے سوا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل عوامی نمائندے ہر گلی، محلے، دیہات، چکوک، وارڈز اور بستی کے وہ کونسلرز اور چیئرمین ہیں جن کو عوام کے مسائل کا علم بھی ہوتا ہے اور ان کی ضروریات سے بھی وہ باخبر ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مقامی کونسلز کو فعال کر کے انتظامیہ اپنے ساتھ بٹھائے اور شفافیت کو میرٹ بنا کر گلیاں بنوائیں، عوام کو گیس اور بجلی کی سہولیات مہیا کریں اور معاشرے کے بے روزگار افراد کے لئے مقامی سطح پر ہی روزگار کا بندوبست کیا جائے لیکن وائے بد قسمتی کہ یہی مقامی کونسلز کئی کئی سال غیر فعال پڑی رہتی ہیں اور بیوروکریسی کے نا اہل ایدمنسٹریٹر تعینات کر کے فنڈز کی اندرون خانہ بندر بانٹ ہوتی رہتی ہے۔

ایک ایسا نظام جس کا مکمل بوجھ صرف رکن قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اٹھا رہا ہو، وہ کیسے چل سکتا ہے؟ اب ہوتا یہ ہے کہ یہی عوامی نمائندگان اپنی نا اہلی، کرپشن اور اقربا پروری پر پردہ ڈالنے کے قانون میں ایسی بھونڈی ترامیم کرتے ہیں جو ہماری قوم کے لئے نہ صرف جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہے بلکہ انصاف اور میرٹ کا قتل عام بھی ہوتا ہے۔

مجھے ہمیشہ فرنگیوں کے نظام جمہوریت کے اس تحفے سے نفرت رہی ہے جس میں ایک عوام کی طرف سے منتخب شدہ نمائندے کو لامحدود اختیارات دے کر اس کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جاتی ہے تا کہ عوام اس کی چیرہ دستیوں اور مظالم سے باخبر رہیں اور بیوروکریسی درپردہ نہ صرف اپنا حصہ بٹورتی رہے بلکہ عصمت بی بی بنی رہی، ایسی عصمت بی بی جو ہے تو بے چادری لیکن معصوم عوام اس کی عصمت اور حیا کے نغمے الاپتے رہتے ہیں۔ قائد پاکستان کی وفات کے ساتھ ہی ہماری یہ نوزائیدہ مملکت ان شیشہ گران کے ہاتھ میں آ گئی جنہوں نے اسے ایک ایسی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جس میں صرف سونا بناتے رہے۔

سیاست کے یہ ”کیمیا گر ’‘ اپنے اپنے حصے کا سونا بنا کر ایک طرف ہو جاتے اور ان کی جگہ لینے کے لئے ان کے وارثان میدان عمل میں آتے رہے اور دیمک کے کیڑوں کی طرح اس ملک کو کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے پیٹ میں موجود طفیلیے یعنی بیورو کریسی کو بھی بڑھ چڑھ کر کھلاتے رہے تاکہ اس کا منہ بھی بند رہے۔

صدر الدین ہاشوانی اپنی آپ بیتی“ سچ کا سفر ”میں شکوہ کناں ہے کہ جب بھٹو نے تعلیم کو سرکاری تحویل میں لیا تو اس کے بعد وہ اپنے ایک پرانے اور سینئیر وکیل رام چندانی ڈنگو مل کو ملنے گئے تو سینئیر وکیل نے بھٹو سے پوچھا:

“ زلفی! تم نے تعلیم کو سرکاری تحویل میں کیوں لے لیا ” بھٹو نے قہقہہ لگایا اور کہا: “پریشان مت ہو، تمہارے اور میرے بچوں نے کون سا یہاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ہے، کیا وہ یہاں پڑھ رہے ہیں؟ ”

ہمارے محلات کی غلام گردشوں میں ایسی لاتعداد کہانیاں اور مثالیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں بنیادی جمہوری نظام کو ناکام بنانے کے لئے مختلف حربے اختیار کیے گئے، مجھے جنرل پرویز مشرف سے لاکھ اختلاف سہی لیکن بنیادی جمہوریت کا جو ڈھانچہ پرویز مشرف نے ہماری قوم کو دینے کی کوشش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس کے پیش رو سابقہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے ادوار نے سب سے پہلا کلہاڑا ہی انہی عوامی نمائندوں پر چلایا اور ایک طویل عرصہ کے لئے یونین کونسلز کا نظام غیر فعال رہا۔ آخر کار سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 2015ء کے اختتام پر نواز حکومت نے انتخابات کروائے تو عوام نے سکھ کا سانس لیا اور ان کے کورٹ کچہری، پٹواری کے مسائل مقامی پیمانے پر حل ہونے لیکن وائے بدقسمتی کہ تحریک انصاف کی نا انصاف حکومت نے مقامی نمائندوں کو نواز لیگ کے کارکنان سمجھتے ہوئے نہ صرف بر طرف کیا بلکہ تین سال کے ایک طویل عرصہ میں دوبارہ الیکشن کے لئے ابھی تک حلقہ بندیوں کا کام بھی مکمل نہیں ہو سکا۔

موجودہ دور میں ہر شخص کی بنیادی ضرورت روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ ذرائع آمد ورفت، تعلیم اورصحت بھی ہے۔ کاش کوئی ایسا مسیحا اور ولی کامل آئے جس کو نہ صرف عوام کے مسائل کا ادراک ہو بلکہ وہ اس اسلامی مملکت کو حقیقی ریاست مدینہ کے خواب کو عملی جامہ پہنائے۔ موجودہ حالات کے بارے میں تو ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ

اس شہر کے انداز عجب دیکھے ہیں یارو
گونگوں سے کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments