ماضی سے کٹی ہوئی دنیا کا مستقبل اور یوکو اوگاوا کا ناول


چینی مصنف یان لیانکے کا ایک دلچسپ مضمون کورونا کال کے دوران ہی سامنے آیا۔ وہ دراصل ان کا ایک ای لیکچر تھا، جس میں انہوں نے یادداشتوں کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اسی مضمون میں کچھ چینی مصنفین کے حوالے بھی تھے۔ لوہ شُن کی دو کہانیوں کا ذکر تھا۔ میں نے وہ دو کہانیاں تو نہیں پڑھیں۔ البتہ مجھے ظ انصاری کی ترجمہ کردہ ان کی ایک کہانی ’ایک پاگل کی ڈائری‘ مل گئی تھی۔ اس میں بھی ایک ایسے شخص کی روداد تھی جسے یہ بھرم ہوجاتا ہے کہ ساری دنیا اس کے خلاف ہوگئی ہے اور اس کی جان لینا چاہتی ہے۔ چنانچہ اس پاگل پن میں مبتلا ہوکر اس نے اپنے اندیشوں کو ایک ڈائری میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ کہانی کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اندیشوں میں گھرا ہوا آدمی کیسے دھیرے دھیرے سب کے خلاف ہوجاتا ہے، اسے یہی لگتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، اسی کے خلاف ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ بات بات پر مخالفت پر اتر آتا ہے۔ یہ صورتحال ہماری قومی صورت حال سے تھوڑی مختلف ہوسکتی ہے مگر انفرادی طور پر اس نے ہمیں قنوطی اور جھگڑالو تو بنایا ہی ہے۔

بہرحال میں یادوں کے ذکر پر واپس آتا ہوں۔ یان لیانکے کے اس مضمون کے بعد مجھے اب تک چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے تین مصنفین کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ یازوناری کاواباتا کی بات الگ ہے کہ میں اسے دل سے پسند کرتا ہوں اور اس کے فن پر الگ سے کبھی لکھوں گا۔ مگر جن مصنفین کا یہ ذکر ہے وہ ہیں چین کے مویان، جاپان کی یوکواوگاوا اور جنوبی کوریا کی ہین کینگ۔ مویان اور ہین کینگ پر الگ سے لکھنا چاہیے، مگر ایک مشترک نقطہ جو ان تینوں مصنفین کے یہاں ہے وہ ہے ماحولیات کا بیان اور اس کے ذریعے انسانی نفسیات پر پڑنے والا اثر۔ ان تینوں کی کہانیوں میں مرکزی کرداروں کے یہاں شخصیت میں جو کجروی یا غلامانہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا بیج بچپن میں ہی بودیا جاتا ہے۔ مویان اور ہین کینگ کے حوالے سے فی الحال اتنی ہی بات کہنی کافی ہے۔ اس وقت میں خاص طور پر یوکو اوگاوا کے ناول پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

فرض کیجیے آپ ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جہاں کوئی بھی چیز، معمولی سے معمولی۔ ایک روز اچانک غائب ہوجاتی ہے اور آپ کو اپنی ذہن کی سلیٹ سے بھی اسے محو کرنا ہے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر آپ ایسا نہیں کرپاتے تو یادوں کو کنٹرول کرنے والی پولیس آپ کو گرفتار کرسکتی ہے، آپ کو سزا سنا سکتی ہے اور جان سے بھی مار سکتی ہے۔ پولیس کا یہ استبداد ہی یوکو اوگاوا کے ناول کا مرکزی خیال ہے۔ اسی لیے ان کے ناول کا نام ہی ’دی میموری پولیس‘۔ اردو میں اس کا کوئی ٹھیک ٹھیک متبادل ممکن نہیں پھر بھی یادوں والی پولیس کہہ کر آپ اپنا جی ہلکا کرسکتے ہیں۔

Yoko Ogawa

یوکو اوگاوا کے اس ناول کو بُکر پرائز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ مگر بکر تک پہنچنے کا اس کا سفر قریب پچیس سال کا رہا ہے، کیونکہ اصل میں یہ ناول 1994 میں شائع ہوا تھا۔ اس ترجمہ شدہ ناول کو پڑھتے وقت بھی جیسے آپ ایک عجیب سے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ناول میں تین اہم کردار ہیں۔ مرکزی کردار ایک ناول نگار عورت کا ہے جس نے بچپن سے ہی اپنے جزیرے پر چیزوں کے گم ہونے اور انہیں بھول جانے کے طریقے کو سمجھ لیا تھا۔ اور جو بڑے ہوتے ہوتے بہت سے دوسرے باشندوں کی طرح اچانک کسی چیز کے غائب کردیے جانے کے حکم پر عمل کرنے کی عادی ہوجاتی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ چیزوں سے اس کا لگائو صرف ضرورت کی حد تک ہی رہ جانا چاہیے تھا۔ مگر پھر بھی وہ ایسا کرنہیں پاتی اور اس کے دو شواہد ناول میں موجود ہے۔

ایک دفعہ جب انوئی خاندان خاموشی سے ناول نگار کے گھر آتا ہے اور اسے اطلاع دیتا ہے کہ میموری پولیس چونکہ پروفیسر انوئی کو طلب کررہی ہے اور وہ ان کے پاس جانے کا انجام جانتا ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے خاندان سمیت، جس میں دو لڑکیاں، ایک چھوٹا بچہ اور اس کی بیوی ہے، کہیں روپوش ہونے جارہا ہے اور اپنی بلی کو پیچھے چھوڑے جا رہا ہے تب ناول نگار کو انہیں رخصت کرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ اسے اس بچاری بلی کو اپنے پاس رکھ لینا چاہیے تھا۔ اسی طرح ناول نگار کے پڑوس کا ایک خاندان، کسی کو اپنے یہاں پناہ دینے کے جرم میں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان کے سنسان گھر میں سوائے ایک پالتو کتے کے اور کوئی نہیں رہ جاتا تو ناول نگار خاتون اسے ڈرتے ڈرتے ہی سہی مگر اپنے گھر لے آتی ہے اور پالنے پوسنے لگتی ہے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ انسانی جذبات کو کسی بھی طرح کے خوف سے کنڑول کرنا ممکن نہیں ہے۔

کہانی کے دوسرے کرداروں میں ایک بوڑھا شخص ہے جو پہلے ملاح ہوا کرتا تھا اور لوگوں کو جزیرے کے پار لے جایا کرتا تھا، اور اب جب سے کسی کو جزیرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے، وہ اپنی کشتی میں گھر بنا کر رہ رہا ہے۔ یہ ایک بے حد دلچسپ کردار ہے۔ جس نے جزیرے کے وہ دن بھی دیکھے ہیں، جب یہاں تمام چیزیں موجود تھیں۔ طرح طرح کے پھل تھے، پھول تھے، لوگوں کو کہیں آنے جانے سے روکا نہیں جاتا تھا۔ انہیں اپنی پسند کی چیزیں چننے، انہیں سنبھالنے کی آزادی تھی اور جزیرے پر خوف کا تسلط نہیں تھا۔ اس کردار کے ساتھ میری زبردست ہمدردی رہی ہے۔ مطالعے کے دوران مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا رہا ہے کہ میں اس بوڑھے سے اپنے آپ کو زیادہ منسلک کر پا رہا ہوں کیونکہ میں بھی بہت کچھ بدلتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ میرے آس پاس بھی چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔ نئے نئے قانون آرہے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے ایک دن میں جس جگہ پر رہتا ہوں، اس کا حلیہ بالکل بدل جائے گا اور تب میرا انجام بھی وہی ہوگا جو اس بوڑھے ملاح کا ہوا ہے۔

تیسرا کردار ایک ایڈیٹر ہے۔ یہ اس اشاعتی ادارے کا ایڈیٹر ہے، جو ناول نگار خاتون کے تین ناول شائع کرچکا ہے اور ہر ناول کی نوک پلک کو اسی ایڈیٹر نے سنوارا تھا۔ یہ شادی شدہ شخص ہے اور عمر میں بھی ناول نگار خاتون سے کافی بڑا ہے۔ چونکہ تخلیقی حسوں سے بہت گہرے حد تک جڑا ہوا یہ شخص کچھ بھی بھول سکنے کی شکتی خود میں نہیں پاتا۔ اس لیے اسے تشویش ہوتی ہے کہ بہت جلد میموری پولیس اسے گرفتار کرلے گی اور یا تو وہ کسی کال کوٹھڑی میں سڑرہا ہوگا یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے ناول نگار خاتون یہ طے کرتی ہے کہ ایڈیٹر کو جس کا نام ’آر‘ ہے، وہ اپنے گھر میں چھپا لے گی۔ اس وجہ سے گھر میں تہہ خانے کی شکل کے ایک کمرے کو رہنے کے لائق بنایا جاتا ہےاور اس میں ایڈیٹر کو منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس پوری یوجنا کا ہر حصہ اتنا دلچسپ ہے کہ آپ حیران و پریشان اسے پڑھتے چلے جائیں گے، جیسے کہ ایک سرد علاقے میں، ڈھلتے چڑھتے اندھیروں کے درمیان کسی بوڑھے پیڑ کے کھوکھلے تنے سے جھانک کر آپ یہ سارا منظر دیکھ رہے ہوں۔

میں کہانی کا پلاٹ بتانے لگا، مگر کرداروں سے اس حد تک شناسائی ضروری تھی۔ چلیے آگے کچھ نہیں بتاتا ہوں۔ مگر ناول نگار کے اسلوب کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک چیزوں کے غائب ہونے کا سوال ہے۔ یان لیانکے کی اس تقریر سے یہ بات مجھے سمجھ میں آگئی تھی کہ چین اور جاپان کے موضوعات میں بھول جانے یا غائب ہوجانے کا استعارہ بہت اہم ہے۔ وہاں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ میں نے بھی جب تلاش کیا تو ایسی کئی کہانیوں اور ناولوں کے نام ملے جن میں چیزوں کے غائب ہوجانے کا تصور یا انہیں بھلا دیے جانے کی بات بہت حد تک حاوی تھی۔

جاپان کی ایک مشہور کہانی جس کی محض جاپان میں دس لاکھ سے اوپر کاپیاں فروخت ہوئی ہیں، گینکی کاوامورا کی ’اگر دنیا سے بلیاں غائب ہوجائیں‘ ہے۔ اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ یہ غائب ہونا یہ چیزوں کا ہاتھوں سے پھسل جانا، انہیں بھلا دیا جانا یا جبریہ طور پر چیزوں کو بھولنے پر لوگوں کو مجبور کرنا، انہیں بے حس بنانا۔ یہ سب ہمارے بھی اتنے ہی قریبی موضوعات ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے آس پاس کی دنیا کا ہر فرد سخت قسم کا بے حس اور جابر بن چکا ہے تو کچھ غلط نہیں۔ میں بھی اپنے ہی لوگوں میں شامل ہوں، بس تخلیقییت سے جڑے رہنے اور ناولوں کو پڑھنے کے میرے شوق نے مجھے اپنی ہی اس کمزوری سے بہت حد تک آگاہ کیا ہے۔

ہم سب ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کا کوئی ماضی ہی نہیں ہے۔ ہر دن ہمارے رہنے اور جینے کے طریقے بدل رہے ہیں یا بدل دیے جارہے ہیں۔ مگر ہم اس پر غور تک نہیں کرسکتے کیونکہ رفتار ہمیں اس کا موقع نہیں دے رہی۔ اس بات کے ثبوت میں آپ سے دو خبروں کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے ایک خبر پڑھی جس میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی شرمگاہ کو تانبے کے تار سے سی دیا، کیونکہ اسے شک تھا کہ اس کی بیوی کا کسی اور کے ساتھ تعلق قائم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف میں نے ایک ویڈیو دیکھا جس میں ایک اپاہج کو ایک ہٹا کٹا شخص بری طرح پیٹ رہا تھا، اسے مکے مار رہا تھا، اسے اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا تھا اور آس پاس کھڑے لوگ گالیاں بک رہے تھے، ویڈیو بنا رہے تھے۔ یقین جانیے کہ میرے اعصاب پر ان دونوں خبروں نے ایک جزوقتی جھٹکے سے زیادہ کوئی گہرا اثر نہیں ڈالا۔ میں ان خبروں کو اسکرول کرتا ہوا آگے بڑھ گیا اور حسیت سےمحروم اپنی آنکھوں کے جنازے کو کسی خوش کردینے والی ویڈیو کی دہلیز پررکھ آیا۔

اب سب کچھ ممکن ہے۔ جس قسم کے ریاستی جبر، میڈیا کی دلالی اور پولیس کے خوف کا ہم شکار ہیں۔ اس کے بعد ہمارے لیے ممکن ہی نہیں کہ کسی بات پر فورا پریشان ہوکر احتجاج کی آواز بلند کریں۔ اس دبائو کا اثر یہ ہے کہ اب ہمارے اندرون میں کرپشن کے کیڑے تک سڑنے لگے ہیں۔ ہم خیالوں میں بھی گہرے کرپٹ اور سچائی سے دور بھاگنے والے، اپنی غلطیوں کو قوم پرستی اور ملک پرستی کی چادروں میں چھپانے والے لوگ بن گئے ہیں۔ ہمارے ہر غیر اخلاقی فعل کا ایک اخلاقی جواز ہمارے پاس موجود ہے۔ اور یہ سب ہمیں اسی دنیا نے دیا ہے، جس میں ہم اپنے ماضی اور اپنی یادداشتوں کو دفناتے چلے جانے کے لیے مجبور ہیں۔

غور کیجیے کہ آپ کا جسم بھی ایک جزیرہ ہے اور اس میں غائب ہونے والی معمولی چیزیں ہیں، جن کےغائب ہونے سے آپ سوچتے ہیں کہ کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ آپ ان کے بغیر بھی جی سکتے ہیں اور اچھی طرح جی سکتے ہیں۔ اس اطاعت گزاری کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے آپ اپنا ذہن، اپنی آنکھیں، اپنا ضمیر اوراپنا دل سبھی کچھ کھونے لگتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کوئی ماضی نہیں ہے، کبھی کوئی ایسی چیز ہوتی ہی نہیں تھی اور آپ اس پر بلاشک و شبہ ایمان لے آتے ہیں۔ اسی لیے آپ سے کہا جاتا ہے کہ جو بات بھی آپ سے کہی جائے اس پر ایمان لائیے، اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے، شک کریں گے، سوال کریں گے تو آپ مجرم ہیں۔ آپ کو اس بات کی سزا دی جائے گی۔ پھر آپ یہی کرتے ہیں۔

پھر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ پچھلی کسی بھی چیز کے بغیر آسانی سے جی سکتے ہیں، نوکری پا سکتے ہیں، پیسے کما سکتے ہیں، پیزا اور ڈونٹ کھاسکتے ہیں، گرل فرینڈ بنا سکتے ہیں۔ مگر آپ کس بات پر بولیں گے، کس پر نہیں، کسے دوست سمجھیں گے کسے دشمن، کس کے ساتھ شادی کریں گے، کس کے ساتھ نہیں۔ یہ سب کچھ میموری پولیس طے کرے گی۔ میموری پولیس، یعنی پچھلی یادیں مٹا کر نئی باتیں آپ کے ذہن میں انڈیلنے والی میموری پولیس اور آپ کو اس حد تک غلام بنایا جائے گا کہ جس چیز کو مٹانے کا حکم دیا جائے آپ اسے خود اپنے ہاتھوں سے مٹائیں گے، اس کا نام و نشان مٹادیں گے، اسے بھول جائیں گے اور پھر اس نقصان پر جشن بھی منائیں گے اور اگلے دن اس طرح جاگیں گے، جیسے آپ نے کچھ کھویا ہی نہیں ہے۔ اور یہ میموری پولیس کوئی اور نہیں، ہر وہ ریاست یا شخص ہے، جو آپ سے کہتی ہے کہ شک مت کرو، پیچھے مت دیکھو، سوال مت کرو، غور مت کرو۔ اس میں سبھی لوگ شامل ہیں، آپ کے والدین بھی، دوست بھی، رشتہ دار بھی، پڑوسی بھی اور تھوڑے بہت خود آپ بھی۔

نئی دنیا یا آگے بڑھتی ہوئی دنیا میں تب تک کوئی برائی نہیں، جب تک وہ اپنے ماضی سے خوف نہ کھائے۔ ایسی دنیا جو کسی بھی طرح کی یادسے خوف کھاتی ہے، اپنے پرانے طریقوں کو بدلنے میں زیادہ تیزی دکھاتی ہے۔ اس لیے جب کسی نیوز چینل کا اینکر چلا کر کہتا ہے کہ ہندوستان کا ہر مسلمان دہشت گرد ہے تو اسے سننے والا ہندو بھول جاتا ہے کہ وہ پچھلی کئی صدیوں سے اسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔ یا جب کوئی مسلمان اپنی مذہبی شناخت کو حوالہ بنا کر اس بات پر اڑ جاتا ہے کہ وہ شادی کے لیےاپنے محبوب کا دھرم پریورتن کرا کر رہے گا تو وہ بھول جاتا ہے کہ ابھی کچھ وقت پہلے جب اس نے کسی انسان سے محبت کی تھی تو محض انسان سے کی تھی، اس کی مذہبی شناخت سے نہیں۔

ہم بھلکڑ بنا دیے جا رہے ہیں، کرپٹ بنا دیے جارہے ہیں اور ہمارے اندر کی کڑواہٹیں اسی لیے گہری ہو رہی ہیں کیونکہ ہم کچھ بھی یاد کرنا نہیں چاہتے۔ نہ اپنی اچھائیاں، نہ برائیاں۔ ہم اپنے آج کے بنائے ہوئے سخت گیر قسم کے اصولوں پر اصرار کرتے ہیں کیونکہ ہم سے ایسا کرنے کے لیے کہا گیا ہے، اسی کے لیے ہماری تربیت کی گئی ہے۔ یہ برسوں کی تربیت کا نتیجہ ہے اس لیے اتنی آسانی سے ہمیں اس کمزوری سے چھٹکارا بھی ملنا مشکل ہے۔ بس ضرورت ہے تو آگاہی کی، اپنی اس کمزوری سے آگاہی کی۔

ہماری نئی سیاست نے پرانے مذہبی انقلابوں سے جو بات سیکھی ہے وہ یہی ہے کہ آج سے پہلے جو کچھ بھی تھا، وہ مٹا دینے اور بھلا دینے لائق ہے، برا ہے اور ہم اتنے کورے ہیں کہ ان باتوں پر یقین کرکے خود ہی تمام پرانے آثار مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments