پاکستان میں سر آئینہ و پس آئینہ کی کشمکش


پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو جو تحفظات تھے وہ ”سر آئینہ و پس آئینہ“ والے ہی تھے اور تھے بھی بہت شدید۔ عوام کی طاقت تو پوری دنیا کے سامنے تھی جنھوں نے فرنگیوں اور اہل ہند، دو شیروں کے جبڑوں سے ایک خطہ زمین چھین کر پاکستان حاصل کر لیا تھا لیکن اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے حصے میں کچھ بھی نہیں آنا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی ادارے کو بھرپور طاقت و صلاحیت بخشی ہی تھی تو وہ کمزوروں کی ہمت و حوصلہ بڑھاتا۔ پاکستان کتنا کمزور ہے اس کا احساس کرتا۔ اس وقت کے حکمران کتنے ناتواں تھے، اس بات کا خیال کرتا۔ پاکستان کے کمزور ہونے کے باوجود اس دور کی قیادت پاکستان کے ساتھ کتنی مخلص تھی، اس کا درد محسوس کرتا۔

پاکستان کی خاطر اپنی ذاتی جائیدادیں، کوٹھی بنگلے اگر اس وقت کی قیادت نے وقف پاکستان کر دیے تھے اور اپنے ذاتی کھاتوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی تھیں تو اس قربانی کو سراہتا۔ قوم کے لئے ٹاٹوں پر بیٹھ کر آئین و دستور بنانے والوں کو سر پر بٹھا کر پوری دنیا کو پیغام دیا جاتا کہ دیکھو آج سے 14 سو سال پہلے کی تمام روایات دہرانے والے کیسے ہوتے ہیں۔

اس کے بجائے اس بات کی تاک میں مسلسل رہنا کہ کب کس کی آنکھ جھپکے اور کب اس پر حملہ کر کے تخت اقتدار پر قبضہ کیا جائے، ایک ایسا عمل تھا جس کی کسی بھی سطح پر پذیرائی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو جانے کے بعد ملک کے ذرائع ابلاغ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی پر اس بری طرح قبضہ کیا گیا کہ عوام کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔

سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک مسلسل جدوجہد اور قربانیاں در قربانیاں دیتی چلی آنے والی قوم نے جب اپنوں کے ہاتھوں یہ زیادتی دیکھی تو اس نے ایسے ہاتھ پاؤں چھوڑے کہ سب کچھ تقدیر کے حوالے کر دیا۔

پاکستان میں 1958 سے لے کر تا حال یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہاں صدارتی نظام ہونا چاہیے یا پارلیمانی نظام حکومت پاکستان کو دوسری اقوام کے مد مقابل لا کھڑا کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس مقصد کے تحت قربانیاں دے کر اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا ، جب ہم نے اسی مقصد کو ہی فراموش کر دیا تو اس کے بعد دنیا کی کوئی بھی طرز حکومت اپنانا یا نہیں اپنانا ایک برابر تھا ، سو 1947 کے فوراً بعد سر آئینہ اور پس آئینہ کی بحث چھڑ جانا کوئی ایسی نئی بات نہیں تھی جس پر بار بار چونکا جائے۔

پاکستان کا طرز حکومت صدارتی رہا ہو یا پارلیمانی، یہاں سر آئینہ و پس آئینہ کی ایک ایسی کشمکش ہے جس سے پیچھا چھڑانا اب شاید ممکن ہی نہیں۔ 1947 سے لے کر 1958 تک وہ قوت جو کبھی سر آئینہ اور کبھی پس آئینہ دیکھی یا محسوس کی جا سکتی ہے وہ ”سلیپنگ سیل“ کے کردار سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر ہوا یوں کہ سر اور پس آئینہ ایک ہی ہو گئے۔ ایسی سوچیں رکھنے والے جو ڈکٹیٹر شپ یا صدارتی نظام میں ہی پاکستان کو ترقی کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور فوجی قیادت میں پاکستان کی فلاح و بہبود کو وابستہ کرتے ہیں تو ان سے یہ سوال تو پوچھا ہی جا سکتا ہے کہ اس وقت کے ایک زبردست جنرل کو ایک اور حاضر ڈیوٹی جنرل نے بندوق کے زور پر کیوں فارغ کر دیا تھا۔

پھر یہی نہیں، دوسرے جنرل نے تین چوتھائی اکثریت رکھنے والی پارٹی کی بجائے ایک چوتھائی سے بھی کم نشستوں والے کو اقتدار کیوں منتقل کیا تھا۔ پھر یہ کہ صدارتی نظام نے اس بات کا اعتراف کیوں کیا تھا کہ پارلیمانی نظام صدارتی نظام سے زیادہ بہتر ہے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صدارتی نظام کو جاری کیوں نہیں رکھا گیا تھا۔

اس وقت کا سر آئینہ (ادارہ) پس آئینہ چلا گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ضیاء الحق کی صورت میں ایک بار پھر سر اور پس آئینہ ایک ہو گئے۔ ایک سر اور پس آئینہ کے بعد دوسرا سر اور پس آئینہ والا آیا اور اس نے سر اور پس آئینہ والی طرز حکومت کی بجائے پھر سے سول حکمران کو سر آئینہ کر کے ایک بار پھر اس بات کا اعتراف کیا کہ صدارتی نظام سے پارلیمانی نظام زیادہ بہتر ہے۔ تمام تر اعترافات کے باوجود پس آئینہ والی جبلت قابو میں نہ آ سکی اور 1999 میں ایک مرتبہ پھر سر اور پس آئینہ ایک ہو گئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدارتی نظام حکومت پارلیمانی نظام حکومت سے بہتر ہے تو ہر مرتبہ فوجی حکمران جمہوریت کی بحالی کی جانب اپنا قبلہ کیوں موڑ لیتے ہیں اور جب وہ اپنا قبلہ بدل ہی لیتے ہیں تو پس آئینہ والی فطری جبلت کو اپنے قابو میں کیوں نہیں رکھ پاتے۔

وہ سوچیں جن کے نزدیک صدارتی نظام میں ملک کی بہتری دکھائی دیتی ہے اور اب جس گروہ میں موجودہ حکمران بھی شامل ہو چکے ہیں، اس سوال کا جواب رکھتے ہیں کہ پاکستان میں تخت اقتدار پر بیٹھنے والے تمام کے تمام فوجی حکمران آخر کار جمہورت کی جانب لوٹ کے جانے پر ہی کیوں مجبور ہوتے رہے ہیں۔ یہ بار بار کی مجبوری اس بات کا ثبوت ہے کہ فی زمانہ فلاح و ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ اگر پارلیمانی نظام سے پس آئینہ والا کردار مائنس ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک کے ہم پلہ نہ ہو جائے۔

جب تک سر آئینہ و پس آئینہ کی کشمکش جاری رہی گی اور پوری قوم صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومتوں کے گرداب میں گھری رہے گی، اس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کرتا چلا جائے گا، خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments