رضامندی کے بغیر سیکس ریپ ہے: یہ بات آپ کو سمجھنی ہو گی



ہمارا موجودہ سماج ایک ایسے دوراہے پہ کھڑا ہے کہ جہاں یہ سوچنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے کہ سماج میں عورت کا کردار کیا ہے۔ اس کے حقوق کیا ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا عورت اپنے متعلق خود کوئی فیصلہ لے سکتی ہے یا نہیں۔ جہاں ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کا مطلب صرف سیکس کی آزادی سمجھا جاتا ہو، وہاں آپ کیا یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس عورت سے سیکس کے لیے رضامندی لی جاتی ہے یا نہیں؟

میری ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک عورت کو چلغوزے، ٹافی، کیلے سے تو تشبیہ دی جا سکتی ہے مگر اسے بطور انسان نہیں تسلیم کیا جاتا۔ بطور انسان اس کے حقوق جن میں تعلیم، صحت کی سہولیات، پسند کی شادی اور جائیداد میں حصہ شامل ہے، وہ تک دینا مشکل ہے۔ غیرت کے نام پہ عورت کا قتل عام سی بات ہے۔ تیزاب گردی اور انسانی سمگلنگ میں بھی سب سے زیادہ خواتین متاثرین شامل ہوتی ہیں جن کو جسم فروشی پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ غرض آپ کسی بھی معاملے کو لے لیں، سب سے زیادہ استحصال عورت کا ہو رہا ہے۔ اور کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن کی خاطر عورت سڑکوں پہ آتی ہے؟ یعنی کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!

عورت کی مرضی کی اہمیت کہیں نہیں ہے۔ یہ سماج ابھی شعور کی اس سطح پہ پہنچ ہی نہیں سکا کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ عورت بھی ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ جس کا دماغ اسی طرح کام کرتا ہے جیسے ایک مرد کا دماغ چلتا ہے۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کو اگر آپ کی تشریح کے مطابق یہ سمجھ بھی لیا جائے کہ عورت اس میں سیکس کی آزادی چاہتی ہے۔ تو کیا اس سیکس کی آزادی میں اس کی مرضی نہیں ہونی چاہیے؟ جس کا جسم ہے کیا اسے یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے متعلق یہ فیصلہ لے سکے کہ وہ کس کو اسے سونپنا چاہتی ہے اور کسے نہیں؟

ہم اس معاشرے میں پل بڑھ کے جوان ہوئے ہیں کہ جہاں عورت کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرد کو انکار کرنے پہ صبح دم تک تمہیں لعنت ملتی رہے گی۔ مگر عورت کی مرضی کے متعلق راوی خاموش ہیں۔ کل ملا کے بات یہ ہے کہ بنا رضا (کنسینٹ) کے سیکس چاہے وہ آپ اپنی بیوی سے کریں ، وہ ریپ ہے، ٹارچر ہے اور عورت کے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے پہلے ہمارے ہاں کے مرد کو یہ سیکھنا پڑے گا کہ بسوں میں، دفتروں میں ، سڑکوں پہ،  سکول، کالج، یونیورسٹی، مدارس اور گھروں میں بھی ہم نے عورت کو ان وانٹڈ ٹچ نہیں کرنا۔

مردوں کو یہ سیکھنا پڑے گا کہ جب وہ سڑک پہ چلتی کسی عورت کو دیکھ کر اپنا آپ کھجانے لگتے ہیں تو ہیرو نہیں لگتے۔ اپنے ساتھ تعلق میں رہنے والی عورت کو عزت دیں۔ اسے مفت ہاتھ آئی شراب مت سمجھیں۔ میں یہ سب کچھ ان لوگوں کے لیے لکھتی ہوں۔ جو اپنی کہانی مجھے سنا تو جاتے ہیں مگر لکھ نہیں پاتے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ اس معاشرے نے ان کو ہی قصوروار کہنا ہے۔

ہمیں معاشرے کو مہذب بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں! عورت نے جینز پہنی ہو یا عبایہ ایک اچھے مرد کی نظر میں اس کے لیے احترام ہو گا۔ ورنہ ریپ چاہے جسمانی ہو یا نظروں سے، اس میں ہمارے مرد کسی سے کم نہیں۔ عورت کے انکار کو انکار سمجھنا سیکھیں۔ اور اگر اس نے آپ پہ بھروسا کر لیا ہے تو اسے اس پہ پچھتانے کی بجائے فخر کرنے کا موقع دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments