پاکستانی لان کے شوٹ میں عائزہ خان کو ترک اداکارہ کے عقب میں کیوں کھڑا کیا گیا؟



ترکی، ہمارے خوابوں کی نئی سرزمین، بلکہ پاک سرزمین۔ خود ساختہ جستجوؤں کا مرکز، ہمارے آباء کی مبینہ تاریخ، ہمارا آخری وعدہ، ہماری بعد از جدیدیت تجدید، نیا سوئٹزر لینڈ، سماجی قبلہ، حسن و جمال کی ایک نئی مثال، رسم و رواج کی شان۔

کچھ عرصے سے ترکی برادر اسلامی ملک سے تبدیل ہو کر پاکستان کی کھوئی ہوئی میراث بن گیا ہے۔ اس بات کا ادراک خود ترکوں کو نہیں ہو گا مگر برادر ملک سے اس قدر محبت کہ یہ گماں ہے کہ پاکستان کو ترکی میں ضم کرنے کی کوئی قرادداد ہی نہ پیش ہو جائے۔ محبت اور خلوص بھی حد میں اچھا لگتا ہے جیسے ترک پاکستانی عوام کے لیے دکھاتے ہیں، حد میں رہ کر۔ انہوں نے اپنا طرز زندگی بدلا نہ ہماری ثقافت کو اپنایا۔ ان کو ترک قومیت سے بڑھ کر کچھ محبوب نہیں۔

حال ہی میں فیشن اور لان ڈیزائنر ماریہ بی کی ان سلی لان 21 کی تشہیر دیکھی تو آنکھیں کچھ حد تک چندیا سی گئیں۔ حسن و جمال، رنگ و روپ کی بکھرتی تجلی، نکھرتے نقوش اور دل کش مناظر تو ایک جانب، پاکستان کی ہر دل عزیز اداکارہ اور معروف ترک اداکارہ گلسم علی نے مشہور برینڈ ماریہ بی کے لان کے لئے مشترکہ شوٹ میں ماڈلنگ کی۔ دیدہ زیب پیرہن اوڑھے دونوں اداکارائیں کسی طور پر بھی ایک دوجے سے کم نہ تھیں۔ مگر شوٹ کی ہر تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی اداکارہ عائزہ خان ہر تصویر میں ترک اداکارہ گلسم علی کے عقب میں کھڑی ہیں۔

شوٹ میں جب عائزہ خان کو پیچھے کھڑا پایا تو انگریزوں اور نوابوں کی ہر تصویر میں پیچھے کھڑے پسندیدہ غلام یاد آ گئے۔ خیال یہ بھی آیا کہ وہ تو زبردستی اور قسمت کے ہاتھوں مجبور غلام اور خدام ہوا کرتے تھے، ارے ان نامی گرامی حسن و جمال، شہرت اور دولت سمیٹتے امراء کو کس نے استعماریت زدہ خدام بنا ڈالا؟ مطلب آپ کی چمڑی گوری ہو مگر اس کی رنگت مدھم ہو تو آپ تو کہیں بھی عزت والا پانی نہیں بھر سکتے۔ سفیدی میں بھی امتیاز برتنا شروع ہو گیا ہے؟ عجیب کھیل ہے، وہاں گورے سامراج نوآبادیاتی جرائم سے لوٹی دولت پر سیاسی و عسکری قوتیں بننے والے گورے سیاہ چمڑی کی مدھم رنگت کو بھی نہیں بخشتے اور ہم ہیں کہ اپنی گوری چمڑی میں بھی انتہائی سفیدی کے متلاشی ہیں۔

پاکستان کی معروف اداکارہ کو ترک اداکارہ کے عقب میں کھڑا کرنا کہیں سے بھی عائزہ خان کی صلاحیتوں کی تکریم نہ تھا۔ یقیناً یہ بعد از جدیدیت کا دور ہے، اب شاہی و استعماری نظام کے ضوابط پر مبنی نکتے اہم نہیں رہے، کوئی عقب میں کھڑا ہو یا روبرو، عزت آپ کے کام اور غیر امتیازی طرز زندگی سے ملتی ہے۔ سوال بس یہی ہے کہ ہر تصویر جو ہم تک پہنچی اس میں ہماری عائزہ خان ہی عقب میں کیوں کھڑی پائی گئیں؟ خوامخواہ میں عائزہ خان کو ترک اداکارہ کے عقب میں کھڑا کیا گیا، جبکہ پاکستان کی سنگین محبت اور احساس کمتری کو دکھانے کے لئے عائزہ خان کو اس کے پیروں میں بھی بٹھایا جا سکتا تھا۔

پاکستان اس قدر بھی غیر محفوظ ملک نہیں رہا کہ برادر اسلامی ملک کے اداکار یہاں آ کر شوٹس نہ کر سکیں جن پر یہاں کے عوام، وزیراعظم، وزراء، میڈیا ہاؤسز، فیشن برینڈز، کرکٹ فرینچائز پیسوں کے ہمراہ اپنے ریشے تک نچھاور کر رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ کرکٹ پہلے بھی کھیلتے تھے، لان کے لباس پہلے بھی بہتات میں بکتے تھے، ایسا کیا ہو گیا کہ ترکی کا بگھار لگائے بنا کوئی ملکی نوعیت کا کام سرانجام ہی نہیں دیا جا سکتا وہ بھی جب تک پاکستانیت کو کمتر نہ کیا جائے۔ ایسا کیجیے کہ آئندہ برس تئیس مارچ کی بجائے انتیس اکتوبر کو یوم پاکستان کے طور پر سرکاری طور پر منانا شروع کر دیں۔

اب ایک پریڈ ہی رہ گئی تھی کہ ایک بین الاقوامی پرائیویٹ سرمایہ دار انٹرٹینمینٹ فرنچائز کی تخلیق کردہ موسیقی کی دھن قومی دن کی پریڈ پر بجائی جائے۔ ہمارے وطن کے قیام میں دور دور تک بھی سلجوقوں یا عثمانیوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ قومی دن کی سنجیدہ پریڈ کو بھی باعث تمسخر بنا ڈالا اور اس میں پرائیویٹ کمپنیوں کی پیشکش کو فاخرانہ انداز سے پیش کیا گیا۔ اس پر جس قدر شرم کی جائے کم ہے ، جس قدر شرم دلائی جائے کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments