متعصب پینٹ کوٹ اور پیٹ کی داڑھی


آج ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ ہو چلا ہے مجھے یہ تحریر لکھتے ہوئے۔ ہر سطر پہ ایک تذبذب اور فکری تلاطم سے میں مسلسل نبردآزما رہا۔ ایک طرف افکار میں معروضیت کو تھامے ہوئے تو دوسری طرف میری اپنی فکری عصبیت میرے دامن کو اپنی طرف مسلسل کھینچتی رہی۔ بظاہر یہ غالب کی اس کیفیت سے مشابہت رکھتی ہے جہاں جان لینے کے بعد بندہ اس طلسماتی بصیرت کا حامل ہو جاتا ہے کہ اسے دنیا تک بازیچۂ اطفال نظر آتی ہے۔ بقول شاہ عبداللطیف بھٹائی جان لینے کا درد سب سے زیادہ تکلیف دہ اور ایک روگ کی مانند ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے رب کی بارگاہ میں سمجھ داری کی حس چھن جانے کی دعا کی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم خود کو کتنا بھی معتدل ، صاحب برداشت،  اور صرف نظر کرنے والے شخص کے طور پہ پیش کریں، ہمارے اندر کا قدامت پسند کہیں نہ کہیں آ کے نظریاتی اور مذہبی عصبیت میں گرفتار ہو ہی جاتا ہے۔ ہم نے جس اعتدال، برداشت اور رواداری، اور آزاد خیالی سے خود کو آراستہ کیا ہوا ہے وہ ہمارا لباس تو ہے لیکن ہمارے وجود سے پیوستہ نہیں۔ اس میں کچھ کمال تو شاید ان فکری الجھنوں کا ہے جن سے ہم اپنی جسدی بلوغت شروع ہونے کے ساتھ ہی نبردآزما ہوتے رہے۔

نتیجتاً تاحال میں اپنی حد تک یہ شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ہم اب بھی شعوری بلوغت کی منزل کو نہیں پا سکے۔ اس لیے اکثر فکری مباحث کے دوران ہم اپنی فکری عصبیت اور ہماری فکری عصبیت ہمیں اپنے قابو میں کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔

یہی حال ہمارے یہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر آزاد خیال (لبرل) لوگوں کا ہے۔ بظاہر انگریزی بابو، تھری پیس سوٹ میں ملبوس داڑھی مونچھ منڈا، دل میں عصبیت کا سمندر لیے پھرتا ہے اور وقت آنے پر اس میں سے کوزے بھر بھر کے اپنی (علاقائی، مسلکی، لسانی، ذات برادری ) نیز قومی غیرت و حمیت کے نام پہ اپنے مخالفین پہ انڈیلتا نظر آتا ہے۔

ہمارے یہاں کے خود ساختہ اور علانیہ آزاد خیال دراصل اپنے وجود میں قائم غیر مرئی زندان کے قیدی ہیں جن کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کے وہ اس حقیقت سے قطعی نابلد ہیں۔ یہ ایک قدرے سنگین، تشویش ناک اور خطرناک کیفیت ہے۔ ایسے لوگوں نے داڑھی کو قدامت پسندی اور اس کے نہ ہونے کو آزاد خیالی کی علامت گردانا ہوا ہے لیکن حقیقت میں ان کی بھی داڑھی ہے جو کہ ان کے پیٹ میں ہے اور یہ دین و الحاد کے متعلق اتنی ہی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، جتنا انہوں نے سنا ہوا ہوتا ہے یا پھر ان کی سوچ غیر مصدقہ تحاریر کے زیر اثر پروان چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔

گزرے وقتوں میں لوگ یا تو روادار ہوا کرتے تھے یا پھر متعصب، آزاد خیال یا پھر قدامت پسند،  ایسے ہی یا تو وہ موحد ہوتے تھے یا پھر ملحد۔ لیکن برسوں پہ محیط ہماری نظریاتی خطوط کا تعین کرنے کے لئے کی گئی تجرباتی مشقوں نے بالآخر اس نئی کیفیت کو جنم دیا ہے جس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر والی ہے ، درحقیقت وہ نہ تیتر ہیں نہ ہی بٹیر۔

بظاہر یہ محض ایک مضحکہ خیز کیفیت سجھائی دیتی ہے لیکن حقیقتاً انتہائی مقبول ہونے کے ساتھ قدرے خطرناک اور بعض اوقات ہولناک بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس کیفیت سے سرشار لوگ یوں تو صاحبان الحاد کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی شدید تمنا رکھتے ہیں لیکن پھر انہی کے افکار کے تحت سماج میں شخصی اور فکری آزادی کے اطلاق کے داعی نظر آتے ہیں۔ اس لئے ان کو اس روش پہ ہمیشہ ثابت قدم پایا گیا ہے کہ جب اور جہاں جو توا گرم دیکھو اس پر روٹی سیک دو۔

ہولناک بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی رسائی پہلے محض سوشل میڈیا تک تھی، اب قومی الیکٹرانک میڈیا تک ہو چکی ہے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ٹی آر پی کی ہوس نے ان کو وہ مقام عطا کیا ہے کہ گویا بندر کے ہاتھ میں ماچس آ گئی ہو۔ ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے خبر رساں اداروں (چینلز) کی پالیسی تفریح مہیا کرنے والے اداروں (چینلز) سے قدرے مماثلت رکھتی ہے۔ اب خبر میں سنسنی نے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو فلم یا ڈرامے میں سسپنس کا ہوتا ہے۔

اس ماچس والی مخلوق نے اللہ کے فضل کی ترویج کچھ اس ادا سے کی کہ ہم کئی بار شرق و غرب پہ حکومت قائم کرتے کرتے رہ گئے۔ یہ ہر اس جہاد کے لئے لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں جس میں خود شامل نہ ہوں اور دنیا کی ہر عورت کے حق کے لئے بھی فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پائے جاتے ہیں جو ان کے گھر کی نہ ہو، جبکہ ان کی نجی محافل میں عورت ایک جنسی وجود سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔

یہ انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم گردوپیش میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر ان کی زبان پہ لگے تالے تب تک نہیں کھلتے ہیں جب تک واقعے کے متاثرین میں ان کی ذات ، برادری، زبان، علاقے یا مسلک کا کوئی فرد شامل نہ ہو۔

یہ مخلوق اب فقط مسلکی، لسانی یا علاقائی تعصب کے حامل افراد تک محدود نہیں رہی بلکہ ایسے خود علانیہ ملحدین (جو کبھی فکر میں معروضیت اور مکالمے میں استدلال کے داعی تھے) اب الحاد کو بھی ایک جذباتی عصبیت کا پیراہن پہناتے ہوئے جوق در جوق اس قبیلے میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر جائیں تو وڈیوز کا ایک ذخیرہ ہے جہاں آپ ان علانیہ ملحدین کو مذہب اور مذہبی لوگوں کو ایسی گالیاں دیتے ہوئے پائیں گے جو کسی صورت معیار میں تھڑے پہ بیٹھے کسی لوفر کی گالیوں سے کم نہیں۔

ہمارے سماجی تعامل میں اس ہنگامے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنے سماجی تنوع کو مربوط رکھنے کے لئے اقدام اٹھانے کے بجائے اس پر ضرب ہی لگائی ہے ، جس سے سماج کی مختلف اکائیوں میں پنپتی محرومی اور بے چینی نے ذہنوں کو اتنا مسموم کر دیا ہے کہ کبھی ایک لمحہ بھی اس بات پہ غور نہیں کیا جاتا کے آخر کیسے باہمی احترام، برداشت اور رواداری کو فروغ دیا جائے تاکہ ہمارا سماج باہمی تکریم سے مزین ہو پائے۔ نتیجتاً اب تو کیا موحد کیا ملحد، کیا آزاد خیال کیا قدامت پسند ہر ایک اپنی اپنی عصبیت پہ پائندہ اور اس کے اثرات سے تابندہ دکھائی دیتا ہے۔

دعا ہے کہ پروردگار ان تمام الجھنوں سے ہم کو باہر نکالے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments