پی ڈی ایم کا اتحاد اور پیپلز پارٹی


قوم کا ایک مقبول لیڈر جس کا تعلق ملک کے ایک بڑے صوبہ سے بھی ہو، جب وہ مفاہمت اور مصالحت کی بجائے میدان میں ڈٹ جاتا ہے اور نظام میں idealism کی بات کرتا ہے تو ملک کی فضا بھی آہستہ آہستہ بدلتی نظر آتی ہے اور منزل بھی دور دکھائی نہیں دیتی۔

موجودہ حکومت اپنی نالائقی کی وجہ سے اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اب صرف گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا بھی کافی ہے۔ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے اقتدار میں قابض ٹولہ جو خوشیاں منا رہا ہے وہ عام انتخابات کرا کے تو دیکھ لے، پتہ چلے گا کہ عوام کیسے انہیں قصۂ پارینہ بناتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز چاہتی ہے کہ استعفے دے کر الیکشن میں چلے جائیں، جس میں بہت سے خدشے ہیں۔ کیونکہ 72 برسوں سے اس ملک میں جمہوری نظام کے کسی قاعدے قانون پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ جہاں بدقسمتی سے ناروا کو جائز میں بدل دینے کے لئے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں افراد کو آئین کے ماتحت ہونے کی بجائے آئین کو فرد کے تابع کیا جاتا رہا ہے۔ ایسا ملک جہاں ایک جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لئے بلوچستان اسمبلی توڑ دی جاتی ہے۔ پارٹیوں کو توڑ کر فارورڈ بلاک بنایا جاتا ہے۔

ایک جمہوری وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر اقتدار سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ سینٹ الیکشن میں حاصل بزنجو اکثریت ہونے کے باوجود الیکشن ہار جاتے ہیں۔ ممبران پر نظر رکھنے کے لئے سینٹ کے الیکشن میں پولنگ بوتھ پر کیمرے نصب کر دیے جاتے ہیں۔ اکثریت ہونے کے باوجود سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ اپوزیشن ہار جاتی ہے۔

جہاں ججز پر دباؤ ہو اور عدلیہ سے من پسند فیصلے کروائے جائیں۔ جہاں آر ٹی ایس بند کر کے من پسند بندوں کو جتوایا جائے۔ ایسے حالات میں کیا نون لیگ کو یقین ہے کہ اگر وہ استعفے دے گی تو ان کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے گا اور آسانی سے اقتدار تک رسائی حاصل کر نے دی جائے گی؟

ن لیگ کو سب حالات کو دیکھ کر سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ ان حالات میں نون لیگ کا اسمبلیوں سے استعفے دے کر دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکن ہے۔ کیونکہ نون لیگ کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی کہ نون لیگ اقتدار میں آئے، وہ نون لیگ کو پیچھے رکھنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔ تو ایسے ملک میں کیا توقع ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے اور جمہوریت پسند قوتوں کے راستے میں کوئی روڑا نہ اٹکایا جائے گا؟

ابھی سفر بہت لمبا اور راستہ بہت کٹھن ہے۔ اب بھی مفاد پرست لوگوں کا ٹولہ غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔

ن لیگ اور باقی ماندہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک بڑے مقصد کے لئے جدوجہد کر رہی ہے، اس لئے ان کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ استعفے دیے بغیر اس نظام کے اندر رہ کر آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کریں۔ یہ جدوجہد اسمبلیوں کے اندر، گلیوں میں چوراہوں میں اور عوامی جلسوں میں ہونی چاہیے تاکہ یہ قانون اور آئین کی حکمرانی کا بیانیہ ملک کے کونے کونے اور ہر گھر کے دروازے تک پہنچ جائے۔ اس سب کے لئے وقت اور تحمل کی ضرورت ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مختلف سوچ نظریات اور مفادات رکھتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی استعفے نہیں دیتی اور اس نظام کے اندر رہ کر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے جہدوجہد کرتی ہے تو یہ اس کا کوئی غلط فیصلہ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم اس سے اختلاف کرنے کی بجائے اس کی حمایت کرے۔ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے بعض معاملات میں اختلاف بھی رکھتی ہو تو بھی آئین اور قانون کی بالادستی کے نکتے پر پی ڈی ایم کی حمایت کرے۔ جمہوریت کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو آگے بڑھانے کے لئے ان دونوں پارٹیوں کا ایک دوسرے کا ساتھ دینا ضروری ہے، ورنہ ان دونوں پارٹیوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے وہ قربانیاں ضائع ہو جائیں گے جو اس موقف کی آبیاری کے لئے ان پارٹیوں کے رہنماؤں نے جانوں کی قربانی کی صورت میں، قیدوبند کی صورت میں اور جلاوطنی کی صورت میں دی ہیں۔

سینٹ الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی جماعتوں میں جو وعدے وعید ہوئے تھے، پارٹیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان وعدوں پر پورا اتریں۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کی ممبر شب اور چیئرمین شپ کے لئے ووٹ دیا، اسی طرح اب پیپلز پارٹی کو بھی اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کے لئے نون لیگ کے امیدوار کی حمایت کرنا چاہیے تھی۔

آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف کے بارے میں جو تلخ باتیں کی ہیں، وہ نہیں کرنی چاہئیں تھیں جبکہ مریم نواز کا بھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اشارے کنایوں میں پیپلز پارٹی پر جوابی حملہ کرنا ٹھیک نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں کا اس طرح کا رویہ رکھنا جمہوری عمل کے لئے نیک شگون نہیں۔ ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں سے دونوں پارٹیوں میں دوریاں اور شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور 90 کی دہائی کی سیاست پھر سے زندہ ہو جائے گی جو جمہوری جدوجہد کے لئے نقصان دہ ہے۔ یوں جمہوری عمل آگے بڑھنے کی بجائے انتشار کا شکار ہو جائے گا۔

ان دونوں پارٹیوں اور ملک کا مفاد اس میں ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر چلیں کیونکہ پاکستان کے عوام کی امیدیں بھی انہی دو بڑی پارٹیوں سے وابستہ ہیں جو اس نظام میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں آپس میں لڑتی رہیں گی تو ملک میں جمہوری عمل کا مقدمہ کمزور ہو گا اور اس چپقلش سے فائدہ کوئی اور اٹھائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments