مانگو، ادھار پکڑو یا چرا لو، ویکسین کو بھی ایٹمی پروگرام بنا لو


پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک ایسا راز تھا جو دنیا پر عیاں تھا لیکن اسے ثابت کرنا بھی کچھ مشکل تھا۔ تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود پاکستان اس پر کام کرتا رہا۔ افغان سوویت جنگ کی وجہ سے امریکہ کو بھی چشم پوشی کرنا پڑی۔ سنہ 1982 میں صدر پاکستان جنرل ضیا الحق نے کرسچن سائنس مانیٹر کی میری این ویور کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے خفیہ ایٹمی پروگرام کی تیاری کا فلسفہ بیان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی ایٹمی سیف گارڈز کو ان کے متعصبانہ ڈھنگ کی وجہ سے قبول نہیں کیا، اور کہوٹہ کو ان سیف گارڈز کے تحت نہیں لایا جائے گا کیونکہ یہ ”مانگو، ادھار پکڑو اور چرا لو“ کے ذریعے بنایا گیا تھا۔

اب مسئلہ کچھ یہ بن رہا ہے کہ کرونا وائرس اس وقت کسی جنگ سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ مقامی کیا عالمی صنعت کساد بازاری کا شکار ہو رہی ہے۔ یعنی لوگوں کی جان بھی جا رہی ہے اور مال بھی۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی دفاعی ضرورت کیا ہے؟ سر پر ٹوٹی وبا میں ویکسین پر پیسہ لگا کر لوگوں اور معیشت کی جان بچانا یا کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں جان بچانے کے لیے اسلحے پر پیسہ لگانا؟

چلیں دفاعی بجٹ کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے کیونکہ ملک ہمیشہ کی طرح ایک نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ مگر ترقیاتی بجٹ تو موجود ہے۔ کیا اس میں سے ایک نمایاں حصہ ویکسین خریدنے اور لگانے، اور ہسپتالوں کو بہتر کرنے پر ہنگامی بنیادوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے؟

اٹھائیس مارچ 2021 کو ایکسپریس ٹریبون میں خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق موجودہ مالی سال کے نو مہینے گزرنے کے بعد 650 ارب (چھے کھرب پچاس ارب) روپے کے ترقیاتی بجٹ کا صرف 42 فیصد استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے کووڈ پروگرام، دیامیر بھاشا ڈیم، گریٹر کراچی واٹر سپلائی اور کراچی کینال پراجیکٹ خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ یعنی ترقیاتی بجٹ کے 377 ارب ابھی بھی ملکی خزانے میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس صورت میں کیا یہ ممکن نہیں کہ حکومت اس میں سے سو دو سو ارب روپے کووڈ کی ویکسین خریدنے اور لگانے پر خرچ کر لے اور کچھ لوگوں کو راشن دینے کے لیے مختص کر دے۔ ابھی تک تو ہم کووڈ کے معاملے میں بیگ یعنی بھیک مانگنے والی سٹیج پر بھی نہیں ہیں، کوئی مخیر ملک یا ادارہ خود سے دے دے تو دے دے، ہم تو بظاہر سکون سے بیٹھے ہیں کہ جس کی جتنی لکھی ہے اتنی ہی جیے گا۔

بہتر ہے کہ مانگنے کی سرگرمی بھی تیز کر دیں، ادھار لینے کی بھی، چرانا تو شاید ممکن نہ ہو اس لیے خریدنے کی کوشش کر لیں۔ اور اس سلسلے میں ویکسین عالمی تنظیموں کے ذریعے بالواسطہ وصول کرنے کی بجائے انڈیا سے براہ راست خریدنے کی کوشش کر لی جائے تو بہتر رہے گا جو ویکسین بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

دنیا کی کل ویکسین کا 60 فیصد انڈیا میں بنتا ہے۔ کووڈ ویکسین بنانے والے ملکوں میں امریکہ کے بعد انڈیا دوسرے نمبر پر ہے۔ چین تیسرے نمبر پر ہے جو ابھی تک عطیات دے رہا ہے، اس سے تجارتی بنیادوں پر خریدنے کی کوشش بھی کر لینی چاہیے۔ روسی ویکسین سپوتنک دس ڈالر کی مل رہی ہے تو حکومت وہ خریدنے کی کوشش بھی کر لے، کیوں لوگوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر کے کئی گنا پیسوں کی خریدنے پر مجبور کر رہی ہے۔

ایٹمی پروگرام کو ہم نے ”مانگو، ادھار پکڑو یا چرا لو“ کی سرگرم مہم کے ذریعے چلا لیا تھا، بہتر ہے کہ ویکسین کو بھی ایٹمی پروگرام بنا لیں ورنہ ہمارا پٹاخہ بول جائے گا اور بم ویسے ہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا جیسے سوویت یونین کا رہ گیا تھا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments