”ڈبویا مجھ کو آموں نے اور ہوئے کٹ کے ہم جو رسوا“


عزیز اور بے حد لذیذ ہم وطنو! ملتان شہر حلوے اور آموں کی نسبت عالم میں انتخاب رہا ہے اور یہاں کی مینگو پارٹیوں کی دنیا میں دھوم ہے۔ مگر مشہور زمانہ رہائشی منصوبے کے پہلے فیز کے لئے ہزاروں ایکٹر باغات کے سر یوں قلم ہوئے کہ مابعد الآمیاتی ملتان ڈی ایچ اے کی کالونی نظر آنے لگا ہے۔ گویا ابھی تو مینگو پارٹیاں شروع ہی ہوئی ہیں۔ آموں کی ہولو کاسٹ پر ماتم کناں طبقات یاد رکھیں کہ ریاست مدینہ میں بھی آم کے باغات نہ تھے۔

سرکار بے سرو کار نہ صرف سیاسی حریفوں بلکہ اپنے کیے تمام وعدوں کا قلع قمع بھی لازم خیال کرتی ہے۔ بدعنوانی، مہنگائی کے خاتمے اور کروڑوں نوکریوں کے وعدے اس ادا سے ٹوٹے کہ ان کی کرچیاں دیس کے طول و عرض میں بکھری پڑی ہیں۔ راشن کے تھیلوں پر حاکم وقت کی تصویر دیکھ کر گذشتگان کی شو بازیاں ہیچ لگنے لگی ہیں اور قرض کی بابت خودکشی کی پھبتی شجر کشی پر منتج ہو چکی ہے۔ جس طرح ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے پہلے سے موجود ملازمین کی برخاستگی ضروری تھی ، ایسے ہی بلین ٹری منصوبے کے لئے پہلے سے اگے درختوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔

شایدملک میں اربوں درخت لگانے کے لئے جگہ دستیاب نہ تھی لہٰذا ملتان کے ہزاروں ایکڑ آم کے باغات کے خون کا خونی فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ شجر کشی عوام روسٹ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ مہذب ملکوں میں یہ عمل قانونی و اخلاقی جرم ہے۔ اہالیان وژن کے مطابق توسیع شہر آموں اور آکسیجن سے کہیں افضل ہے۔ کچھ شریر ناقدین کے مطابق DHA کے کرتا دھرتوں اور آموں کی باہمی چپقلش کے تانے بانے اگست 1988 کے خلائی حادثے سے جا ملتے ہیں۔ اس حادثے میں ”امبھ“ لے کر لوٹنے والے بہت سے لوگ جام شہادت نوش کر گئے لہٰذا آموں کے ہزاروں پیڑوں کو بھی انتقاماً موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔

ممکن ہے یہ آم ماضی میں کرپشن میں بھی ملوث رہے ہوں اور این آر او کے قابل نہ ہوں۔ طبی ماہرین کے مطابق آم لنگڑا ہونے کے سبب ملکی دفاع کے لئے ان فٹ بھی ہے۔ سابقہ حکومتوں میں آم کی پیٹیاں بطور رشوت استعمال ہوتی تھیں۔ پھر یہ آم ایک طویل مدت سے ان زمینوں پر قابض تھے اور ان خطوں میں موروثیت کے شدید خطرات منڈلا رہے تھے۔ روٹی کپڑا مکان کے حقیقی دعویدار روٹی کے لئے لنگر خانے اور مکان کے لئے ایسی اسکیمیں متعارف کروا چکے ہیں جبکہ کپڑوں کی بابت بڑی محنت سے لائحہ عمل کی تیاری جاری ہے۔

ان آموں کا تیا پائنچہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ پولن الرجی پھیلانے کے ساتھ ساتھ راتوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑ کر انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے تھے۔ مذکورہ باغات ڈاکوؤں کے لئے پناہ گاہ بنے ہوئے تھے ، سو ان کی جگہ انسانوں کو بسانا وقت کی ضرورت تھی۔

یہ عقدہ بھی کھلا کہ ان آموں کی گٹھلیوں کے دام نہ ہونے کے برابر تھے ، پس ان کا وجود اب بے سود تھا۔ سنا ہے اس سانحہ کا دکھ مرزا غالب کو بھی ہوا ہے جو پل صراط پر کھڑے ”ڈبویا مجھ کو آموں نے اور ہوئے کٹ کے ہم جو رسوا“ کے مصرعے دہرائے جا رہے ہیں۔ آخر میں ملتان باسیوں سے پوچھنا ہے کہ کیا اس برسات میں بھی ان مصرعوں کو سننے کی تاب رکھ پائیں گے؟

امبھوا کی ڈالیوں پہ جھولنا جھلا جا
اب کے ساون تو ساجن گھر آ جا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments