کورونا کی نئی لہر اور حکومت کا رویہ


کرونا کی تیسری لہر نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں بدترین تباہی مچانے کے بعد وہاں کورونا کیسز کم ہونے شروع ہوئے ہیں۔ برطانیہ جو کچھ ہفتے پہلے تک کورونا کی زد میں پڑا تھا اب وہاں بھی حالات نارمل لگنا شروع ہو چکے ہیں۔ برطانیہ نے بہت تیزی سے اپنے لوگوں کو ویکسی نیشن کی ہے اور اس سلسلہ میں اپنے ہمسائے یورپین یونین کے ممالک پر بھی سبقت حاصل کر لی ہے۔ جرمنی جیسے بہترین سسٹم کے حامل ملک بھی اس طرح کا ردعمل نہیں دے سکے۔

ادھرہم نے چائنا کی مفت ویکسین طبی عملہ کو اور بزرگ شہریوں کو لگانے کا سلسلہ سست رفتاری سے شروع کیا ہوا ہے۔ آبادی کا باقی حصہ ابھی تک کووڈ کے نشانے پر ہے اور روز بروز کیسز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے وزیراعظم بھی اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ حکومت نے اب شاید ہتھیار ڈالتے ہوئے پرائیویٹ کمپنیوں کو ویکسین امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کچھ دنوں بعد مختلف بڑے ہسپتالوں میں یہ روسی اور چینی ساختہ ویکسین دستیاب ہوں گی مگر وفاقی کابینہ نے اس کی جو قیمت طے کی ہے وہ غریب کی پہنچ سے باہر ہو گی۔

ہمارے ملک کی اکثریت غریب آبادی پر مشتمل ہے ، ان کو ویکسی نیشن دینے کے لئے ابھی تک حکومت کی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی کیونکہ ابھی سیاست دان اقتدار کی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ مل کر بیٹھتے اور غریب طبقہ جو ان کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں لاتا ہے اور وہ تبھی پاور گیمز کھیلنے کے قابل بنتے ہیں۔

ہم نے یہ انتہائی اہم دورانیہ سینٹ کے الیکشن کی سنسنی خیزی دیکھتے دیکھتے گزار دیا حالانکہ باقی دنیا میں کورونا ویکسین کے جلد حصول اور آبادی کو تیزی سے لگانے کے لئے اس وقت جنگ کی سی کیفیت ہے۔ اگر کچھ کمپنیوں کو امیر طبقے کو لگانے کے لئے ویکسین کی درآمد اجازت دی گئی ہے اور وہ منہ مانگے داموں ان کو بیچنے کے لئے پر تول رہی ہیں ، ان کو پابند کیا جائے کہ غریب عوام جو ان کی قیمت افورڈ نہیں کر سکتے ان کے لئے ویکسین کی کچھ پرسنٹیج مفت فراہم کریں۔

ویسے بھی جب تک ویکسین تمام آبادی کے غالب حصے کو نہیں لگ جاتی ، اس بیماری کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اگر آبادی کا بڑا حصہ اس کے نشانے پر رہا تو ملک نارمل پوزیشن میں نہیں جا سکتا۔ پاکستان ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک خط لکھ کر پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے اور اوور پرائسنگ پر کڑی تنقید کی ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ اگر گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پوری آبادی کے لئے ویکسین خرید سکے تو ویکسین نہ لگنے سے ملک کو مستقبل میں بار بار لاک ڈاؤن لگانے کی صورت میں اس سے کہیں زیادہ معاشی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

اس طرح ہم بچوں کی تعلیم کا حرج بھی کر رہے ہیں۔ کاروبار کی بندش سے غریب طبقے کا جینا مشکل ہو رہا ہے ، حکومت کو بار بار ان کی امداد کرنا پڑے گی۔ اس کی بجائے ایک دفعہ ویکسین خرید کر پوری آبادی کو لگانی چاہیے اور اس جان لیوا مرض سے جان چھڑانے کی سعی ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو باقی دنیا اس بیماری کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ہم باقی دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔ پاکستان کے ہمسائے میں موجود بھارت بڑی تیزی سے اپنی آبادی کو ویکسین لگا رہا ہے۔

بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ نے آکسفورڈ کی ویکسین کی اپنے ملک کے اندر پیداوار شروع کی جس کی وجہ سے بھارت ایک تو اپنے ملک کے لوگوں کو بلارکاوٹ ویکسین کی سہولت پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ اس نے ویکسین ڈپلومیسی کے ذریعے بنگلہ دیش، نیپال، افغانستان، سری لنکا وغیرہ کو مفت ویکسین کی کئی لاکھ خوراکیں بھجوائی ہیں۔ جبکہ حالیہ رپورٹس کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور گاوی کے تحت پاکستان سمیت غریب ملکوں کو ملنے والی لاکھوں خوراکوں کی فراہمی اس بناء پر ملتوی کر دی گئی ہے کہ ابھی بھارت کے اندر اس ویکسین کو پورا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہم بروقت اقدامات کر لیتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ لگتا ہے کورونا کی یہ تیسری لہر اس وقت آئی ہے کہ لوگ اب اس کے متعلق ایس او پیز پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک سال قبل جب لاک ڈاؤن لگا تھا تو لوگوں کے اندر خوف تھا مگر اس دفعہ اس طرح کے حالات نہیں ہیں۔ لوگ سماجی میل جول اور شادی بیاہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد اس وقت کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں مگر وہاں جا کر دیکھیں تو کہیں احتیاط نظر نہیں آتی۔

سمارٹ لاک ڈاؤن بھی اب اتنا مؤثر نظر نہیں آتا۔ جبکہ حیرت انگیز طور پر کراچی اس لہر سے محفوظ ہے۔ پنجاب کے شہری علاقے اس وقت وبا کی زد میں ہیں۔ مگر ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کے لئے ادارے اس طرح متحرک نہیں ہیں۔ دیہاتی علاقوں کے لوگ نسبتاً محفوظ ہیں۔ اس طرح طبی عملہ بھی اس لہر میں نسبتاً محفوظ نظر آتا ہے۔ طبی عملے کو دی جانے والی ویکسین لازمی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔ جبکہ بعض جگہوں سے یہ شکایات بھی آئی ہیں کہ ویکسین کی دوسری ڈوز لگانے کے لئے سپلائی موجود نہیں ہے۔

اس طرح معمر افراد کو گھر گھر جا کر ویکسین لگانے کی بھی سہولت نہیں ہے لہٰذا ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے کئی لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو ویکسی نیشن سینٹرز تک نہ پہنچ پائیں اور ویکسین نہ لگوا پائیں۔ اس سلسلہ میں ہر ہسپتال میں یہ پوائنٹس ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ایک سروے کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ویکسی نیشن ایمرجنسی کی کمی نظر آتی ہے مگر ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس وبا کا خاتمہ صرف مکمل ویکسی نیشن سے ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments