پاکستانی سیاست میں مہروں کی نشست و برخاست


سیاست بھی ایک نہایت بے رحم کھیل ہے۔ یہ ایسی بساط ہے جس پر پھیلے ہوئے کسی بھی مہرے کے مطلق یہ پیش گوئی مشکل ہے کہ کسے کب چلایا اور کب پٹوایا جائے گا۔ صرف ایک پیادہ بڑھ جانے سے جنگ کا نقشہ بدل کر رہ جاتا ہے اور مخالف کو اپنی پہلے سے سوچی چال کا اعادہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایک معمولی لغزش بساط کو بالکل الٹ کر رکھ دیتی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شاطر ہر جانب سے مخالف کی چال میں گھرا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کبھی گھرا ہوا شاطر صرف ایک پیادے کی چال چل کر دوسرے شاطر کے پسینے چھڑا کر رکھ دیتا ہے۔

پاکستان کے میدان سیاست میں ایک طویل عرصے سے شطرنج کے مہرے ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ مہروں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سب ”شاطروں“ کے محتاج ہوتے ہیں۔ نہ کسی چال میں ان کی اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بذات خود ایک قدم بھی چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہلانے کو بادشاہ اور وزیر ہوتے ہیں لیکن ان کے سر کے تاج اور وزارت کے اختیارات کسی اور ہی کے پاس ہوتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ شاطروں کی غلط چالوں اور ناقص منصوبہ بندیاں ان کو پیادوں سے مروا دیتی ہیں اور بادشاہ سلامت گھوڑوں کے شکنجے میں پھنس کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جایا کرتے ہیں۔

پاکستان میں کئی مرتبہ بہت سارے سیاسی اتحاد سمندر کے طوفانوں سے بھی کہیں زیادہ خوفناک انداز میں اٹھے لیکن انجام کار جھاگ کی طرح بیٹھ کر رہ گئے۔ اگر سیاسی اتحادوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ شطرنج کے بے زبان و بے جان مہروں سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آ سکتے۔ نہ تو یہ طوفانوں کے انداز میں از خود اٹھتے ہیں اور نہ ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جانے میں ان کا کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔

عوام و خواص کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مہرے صرف مہرے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی چاندی کی انگوٹھی پر سونے کا خول چڑھا دیا جائے تو وہ اپنے تئیں خود کو ”سونا“ سمجھنے لگتی ہے اور اس کی بڑائی اسے چاندی سے دور کر دیتی ہے لیکن سونے کی ملمع سازی کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ”نسلی“ کہلائی جائے۔ جونہی پرت اترنا شروع ہوتے ہیں، سارا غرور خاک میں مل کر رہ جاتا ہے۔

جب سیاست کی شطرنج کی بساط پر مہرے سجانے والے مہر سجا لیتے ہیں تو نہ جانے کیوں یہ سب مہرے اپنے آپ کو شاطروں کا شاطر کیوں سمجھنے لگتے ہیں۔ بے شمار مرتبہ دھوکا کھانے کے بعد بھی یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ آخر ہر مرتبہ چاندی کی انگوٹھیاں اپنے آپ کو چاندی سے الگ کیوں سمجھ بیٹھتی ہے۔

9 ستاروں سے لے کر پی ڈی ایم تک، یہ سب پیتل تانبے ملمع سازی کے بعد نہ جانے اپنے آپ کو سونا کیوں خیال کرنے لگتے ہیں۔ جے یو آئی کے وردی پوش جس انداز میں اسلام آباد میں چڑھ دوڑے تھے لگتا تھا کہ یہ موج بلاخیز طوفان نوح کی طرح سب کچھ بہا کر لے جائے گی لیکن وہ یہ بھول بیٹھے تھے کہ یہاں تک لانے والے بھیجنا بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ پی ڈی ایم تشکیل دی گئی تو لگا پورے پاکستان کی زمین تپ محرقہ کی طرح کپکپانے لگی ہے لیکن پھر کیا حشر ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔

موجودہ حکومت کے لئے پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کا اچانک اپنا قبلہ بدل لینا بے شک بہت خوش کن محسوس ہو رہا ہو گا اور وہ عوام جو پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں، ان کے قدم تو مارے خوشی، زمین پر ہی ٹک کر نہیں دے رہے ہوں گے لیکن وہ کب اور کس گھڑی اداسیوں کی گہری دلدل میں جا گریں، اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پی ٹی آئی اس وقت بہت سکون میں ہے اور پی ڈی ایم نزع کے عالم میں دکھائی دیتی ہے لیکن شاطر کے ذہن میں کیا منصوبہ بندی ہے اس کا اندازہ ہر دو جانب شاید ہی کسی کو ہو۔

کہتے ہیں کہ ”ہرجائی“ ہرجائی ہی ہوتا ہے۔ بے شک موجودہ حکومت پی ڈی ایم میں بہت بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن ”ہرجائی“ شاید اپنی منصوبہ بندی کے مطابق مسلسل آگے کی جانب بڑھتا چڑھتا نظر آ رہا ہے یا ”ہرجائی“ کا ”شاطر“ اپنی بساط پر اپنے مہروں کو درست انداز میں حرکت دے رہا ہے۔

ہرجائی نے کہا تھا کہ ہم نے ایک مورچہ (گیلانی کو سینیٹ میں لانے کا) سر کر لیا ہے۔ اب ہمارا ہدف پنجاب کو قابو میں کرنا ہے پھر عدم اعتماد کو کامیاب بنانا ہے۔ ہم عمران خان تمہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ یہ الفاظ دیکھیں اور مسلسل اہداف کی جانب بڑھتے رہنا دیکھیں۔ سینیٹ میں جگہ بنانے کے بعد قائد حسب اختلاف کا عہدہ سنبھال لیا۔ اب یقیناً ان کا دوسرا ہدف پنجاب اور آخری ہدف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا ہو گا۔

پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کی سیاست کی بساط پر سارے سیاست دان فقط مہرے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرپشن کے سلسلے کو جاری رکھ کر پوری ریاست کو غیر ممالک کے ہاتھوں گروی رکھنا ہے یا گلاب کی شاخوں کو چھانٹ کر چمن کے نکھار میں اضافہ کرنا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ چھٹائی کی صورت میں حکومت اکثریت کھو دینے کو تیار ہوتی ہے یا پاکستان بھر کے بد عنوانوں کے ساتھ مملکت کا سودا منظور کرتی ہے۔ ظاہر ہے مملکت کو بچانے کے لئے یا تو کاٹ چھانٹ ہو گی یا کرنے والے ہاتھ ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

چھٹائی کی صورت میں جب حکومت اکثریت کھو دے گی تو پھر ”جمہوری“ طریقہ پی پی پی کو خود ہی کرسی اقتدار پر لے آئے گا۔ لہٰذا ”یوتھیے“ جو تالیاں بجا رہے ہیں، چند ماہ بعد بغلیں بجانے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں اس لئے کہ شطرنج کے مہرے صرف مہرے ہی ہوا کرتے ہیں، شاطر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments