کووڈ 19 میں حمل کی پیچیدگیاں اور سری لنکن سفیر


ماضی میں ایک زمانہ ایسا آیا تھا جب لالی ووڈ سینما کی فلموں کی عکس بندی شمالی علاقوں کی بجائے غیرملکی مقامات پہ ہونے لگی۔ ہمارے میڈیکل کالج کے دنوں میں کچھ اس طرح کے نام سننے کو ملتے، ہانگ کانگ کے شعلے، بنکاک کی بجلیاں ، مس کولمبو۔

کڑھتے ہوئے دل مسوس کے رہ جاتے کہ ہمارے تخلیقی جوہر کو نہ جانے کس کی نظر لگی کہ ماضی میں سنائی دینے والے سب نغمیت سے بھرپور دلفریب نام وقت کی دھول میں گم ہوئے۔

ان فلموں کو دیکھنے کا نہ اتفاق ہوا اور نہ ہی اپنا صبر آزمانے کی ہمت ہوئی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ سیاحت کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔ آج یہ یاد، ذہن کے اس نہاں خانے سے باہر نکلی ہے جہاں نہ جانے کتنے برسوں سے کس کس کے نام کا سامان پڑا ہے۔ زندگی مہلت ہی نہیں دیتی کہ ان یادوں کے جگنؤوں اور رنگوں کی تتلیوں کی آوازوں پہ مڑ کے دیکھا جائے۔ ایک خوف تو رہتا ہی ہے نا کہ کہیں پتھر کے نہ ہو جائیں۔

بات کچھ یوں ہے کہ فلم مس کولمبو کی ہیروئن کا نام تو ہمیں معلوم نہیں لیکن کچھ ایسا ہے کہ کولمبو ٹائمز میں ہماری خبر چھپ گئی ہے۔ ارے ارے، آپ غلط سمجھے، ہمارا قطعی کوئی ارادہ نہیں کہ ہم پردہ سکرین پر جلوہ افروز ہو کر وہ بنیں، وہ یعنی مس کولمبو!

حد ہو گئی، ہم نہ جانے کیا کچھ کہے چلے جا رہے ہیں اور اصل بات کا اشارہ ہی نہیں دے رہے۔ سو بات یہ ہے کہ سری لنکن ایمبیسی سے پیغام ملا ہے کہ ان کے سفیر صاحب ہم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پہلے حیران ہوئے پھر پریشان کہ اس عمر میں تو رہے نہیں کہ مس کولمبو بننے کی آفر ملے یا شاید مس کولمبو کی ماں کا کردار ؟

کچھ مزاج بھی ایسا ہے کہ ہم سفیروں، وزیروں اور جرنیلوں سے کچھ دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ سو اب سوچ میں گم ہیں کہ بیٹھے بٹھائے دیار غیر میں نہ جانے کیا افتاد آن پڑی؟

فرسٹ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ وہ کسی مریض کے سلسلے میں ہمیں ملنا چاہتے ہیں.

“کیا بیگم؟”

ہم نے استفسار کیا تاکہ مناسب وقت کی اپائنٹمنٹ دی جائے۔

“نہیں ڈاکٹر، مریض تو ہے لیکن ذاتی نہیں بلکہ ہماری کمیونٹی کی ایک خاتون، جس کے ٹرپلٹ بچے پیدا ہوئے تھے”

ہمارے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔

ارے وہ سری لنکن مریض جو کورونا کے لاک ڈاؤن میں حمل کی پیچیدگیوں کا شکار ہوئی تھی۔

اپریل کی بہار تھی لیکن ایسی وحشت کہ سارا شہر ویران پڑا تھا یوں جیسے طلسم ہوشربا میں کوئی جادو کی چھڑی گھمائے اور پل بھر میں سب کچھ نظر سے اوجھل ہو جائے۔ ایسے میں وہ جوڑا پولیس کے اجازت نامے کی مدد سے کئی چوکیاں پار کرتا ہمارے کلینک تک پہنچا۔

دراز قامت، پرکشش خاتون اور ہنس مکھ شوہر! شادی کے بہت برس گزرنے کے بعد بھی آنگن میں پھول نہ کھلا تو دونوں نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے عمل سے گزرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نتیجہ بطن کی زمین سے اگنے والی تین کونپلیں تھیں یعنی ٹرپلیٹ پریگنینسی!

دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خوش نظر آتے تھے۔ان کے خواب کو تعبیر ملنے ہی والی تھی. ہم نے انہیں وہ سب ہدایات دیں جو تین بچوں کی حاملہ ماں کے لئے اہم ہوتی ہیں۔ دونوں نے بغور سن کے کچھ سوال کیے اور مطمئن ہو کے اگلے کچھ مہینوں کے لائحہ عمل کو ذہن نشین کر لیا۔

کوووڈ کی ابتدا کا زمانہ تھا۔ خوف و ہراس، بے یقینی، لاک ڈاؤن لیکن کئی چوکیوں سے ہو کے ہم اپنے ہفتہ واری پرائیویٹ کلینک جاتے رہے اور ہمارے مریضوں نے بھی اسی بہادری کا مظاہرہ کیا۔

“ڈاکٹر جلدی ہسپتال پہنچو، وہ سری لنکن ٹرپلٹ بچوں کی حاملہ ہسپتال پہنچی ہے۔ بلڈ پریشر بہت بڑھا ہوا ہے اور اس کی طبعیت اچھی نہیں”

ہماری اسسٹنٹ کا فون تھا۔

کچھ ضروری ہدایات دیتے ہوئے ہم نے گاڑی ہسپتال کی طرف دوڑا دی۔ ابھی تو آٹھواں مہینہ شروع ہی ہوا ہے اور بچے تو بہت چھوٹے ہیں۔ ہم نے خودکلامی کی۔

خاتون لیبر روم میں تھی اور مختلف قسم کے مانیٹرز سے اس کا بی پی اور بچوں کے دل کی ریکارڈ ہو رہی تھی۔ خاتون کو سر درد کی شکایت کئی دنوں سے تھی لیکن وہ سمجھیں کہ شاید حمل کی بے آرامی کی وجہ سے ہے۔ جب سر درد کے ساتھ چکر آنے شروع ہوئے تو وہ لوگ ہسپتال کی طرف دوڑے۔

بی پی بہت بڑھا ہوا تھا۔ گردوں سے پیشاب کے ذریعے خارج ہونے والی پروٹینز بہت زیادہ تھیں۔ رگوں میں دوڑنے والا خون اس طرح سے پتلا ہو رہا تھا کہ خون بہنے کی صورت میں رک نہ سکے۔

حاملہ عورتوں میں یہ صورت حال دنیا بھر میں حمل کی وجہ سے ہونے والی اموات میں سر فہرست ہے۔ تیسری دنیا کی بے شمار خواتین باقاعدہ مدد ملنے سے پہلے ہی موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ ہم اس پیچیدگی کو پری اکلیمپسیا کے نام سے جانتے ہیں۔

یہاں یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے کہ پری اکلیمپسیا ( preeclampsia ) میں ہائی بلڈ پریشر اور اس کے بنیاد بننے والے ہائی بلڈ پریشر میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی فرق موت کا باعث بنتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر میں خون کی رگوں میں موجود پریشر دواؤں سے باآسانی قابو کیا جا سکتا ہے اور زچہ کی زندگی خطرے میں نہیں ہوتی۔ لیکن پری اکلیمپسیا میں ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ جسم کے تمام اعضا ملوث ہو کے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔

گردے پہلے چربی خارج کرتے ہیں پھر آہستہ آ ہستہ تمام زہریلے مادوں کا جسم سے خروج کم ہوتا جاتا ہے اور انتہائی درجے پہ گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

سر میں شدید درد رہتا ہے، چکر آتے ہیں اور برین ہیمرج اور فالج کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔

جگر اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جگر کے اندر خون بہنا شروع کر دیتا ہے۔

خون میں وہ سیلز کم ہونے شروع ہو جاتے ہیں جس سے خون کا خروج رکتا ہے۔

پھیپھڑوں میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

آنکھ میں پریشر بڑھنے کی وجہ سے بار بار آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا جاتا ہے، روشنی کے جھماکے نظر آتے ہیں اور بینائی مستقل بنیادوں پہ جا سکتی ہے۔

کچھ مریضوں کو مرگی کی طرز کے دورے بھی پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ پری اکلیمپسیا کی آخری منزل ہے جسے اکلیمپسیا کہا جاتا ہے۔ اس سٹیج تک پہنچنا ہر ڈاکٹر کے لئے ایک خوفناک خواب ہے۔

بچے کی نشوونما رکنے کے ساتھ اس کے گرد موجود پانی بھی کم ہو سکتا ہے اور زیادہ تشویشناک حالت میں بچے کی پیٹ میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔

ہماری سری لنکن مریضہ اکتیس ہفتے کے حمل کے ساتھ شدید نوعیت کے پری اکلیمپسیا کا شکار تھی۔ ایسے حالات میں مریضہ تب ہی بچ سکتی ہے جب حمل ختم کرکے بچے کی وقت سے پہلے ڈلیوری کروا لی جائے۔

لیکن یہاں ایک مشکل درپیش تھی!

بچہ ایک نہیں، تین تھے اور تینوں کم وزن پری میچیور!

وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے صرف اسی صورت بچ سکتے ہیں جب نوزائیدہ بچوں کے ماہر ڈاکٹر اور ساتھ میں درکار تمام سہولیات کی فراہمی میں کوئی بھی دقت نہ ہو۔ تیسری دنیا میں پری میچیور بچے زندگی اور موت کی جنگ انہی سہولیات کی کمی کی وجہ سے ہار جاتے ہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ خاتون کو فوراً سرکاری ہسپتال منتقل کر کے بلڈ پریشر پہ قابو پا کے ان کا سیزیرین کیا جائے اور بچوں کو نرسری میں ماہر ڈاکٹر کے سپرد کر دیا جائے۔

گو کہ ہم اسی سرکاری ہسپتال میں کام کرتے ہیں لیکن کسی بھی مریض کو پرائیویٹ سے سرکاری میں منتقل کرنا ایک دشوار عمل ہے کہ سرکار نے صحت کے نظام کو باقاعدہ بنانے کے لئے اس پہ کافی شرائط نافذ کر رکھی ہیں۔ ہر مریض منہ اٹھا کے کسی بھی ہسپتال میں نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں انتہائی پیچیدہ مریض کے ساتھ نزلہ زکام بخار یا اسہال والا مریض ہسپتال پہ اس قدر وزن ڈالتا ہے جس سے ہسپتال کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

انتظامیہ سے گفت وشنید کرنے کے بعد آخر کار وہ خاتون ہمارے سرکاری ہسپتال پہنچیں، اور بقیہ کہانی ویسے ہی آگے بڑھی جیسا ہم نے سوچا تھا۔

سری لنکن مریض حمل کی ایک خطرناک صورت حال کا شکار ہونے کے بعد روبہ صحت ہو کر گود میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا تحفہ لے کر گھر لوٹ چکی تھیں۔

کولمبو ٹائمز میں خاکسار کا نام چھپ چکا تھا اور اب سفیر سری لنکا ہم سے ملاقات کے متمنی تھے۔

http://colombotimes.net/lankan-mother-in-oman-who-could-not-travel-home-due-to-covid-lockdown-is-blessed-with-triplets/?fbclid=IwAR3EXKIMifVYT9q0a4mfZYHaaejiP2P-5US3CNTollx12oQqhIxqb89aqJA

آگے کی داستان ویسی ہی ہے جیسی ہوا کرتی ہے، پروٹوکول، سووئنیر اور تصویریں!

ہم ان تکلفات سے تو متاثر نہیں ہوا کرتے لیکن سفیر سری لنکا کی اپنی کمیونٹی کے ایک عام فرد سے جڑی دلچسپی ہمیں اچھی لگی۔ پبلک سرونٹ نے اپنے منصب کا حق خوب نبھایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments