سورئی گٹہ کی دہشت اور ایک معصوم کلی کی خودکشی


ہر علاقے میں کائنات کا کوئی جزو یا چیز ایسی ہوتی ہے جو اس علاقے کے لوگوں کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ چیزیں اس علاقے کے لوگوں کے لیے تلخ یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔ اس قسم کا کردار ضلع مالاکنڈ کے گاؤں جولگرام کی وادیٔ تری میں بہنے والے دریائے سوات میں ایک چٹان نے ادا کیا ہے۔ جو ”سورئی گٹہ“ (چٹان کے اندر سرنگ) کے نام سے مشہور تھا۔ گاؤں جولگرام وادیٔ تری میں بہنے والے دریائے سوات میں ایک چٹان تھی جس کے اندر ایک تنگ سرنگ تھی۔ اس سرنگ نے بہت سے لوگوں اور جانوروں کی جانیں لی تھیں اور اس وجہ سے سورئی گٹہ کو ایک خوفناک اور ظالم چٹان کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔ اس خونی چٹان کے ساتھ ہمارے گاؤں جولگرام اور دریائے سوات کے کنارے آباد گاؤں کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔

اس کا نام میں نے پہلی دفعہ اس وقت سنا تھا جب میں سات آٹھ سال کا تھا۔ میرے پڑوس میں ایک خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان میں ایک لڑکی تھی اس کی شکل و صورت اللہ تعالیٰ نے ایسے بنائی تھی جس سے معصومیت اور شرافت ٹپکتی تھی۔ اس کی ماں سوتیلی تھی اور ہر وقت اس معصوم لڑکی کو تنگ کرتی تھی۔ جب بھی اس گھر میں کسی مسئلے پر شور ہوتا تو میں فوراً اس کی چھت پر چڑھ جاتا۔ جس گھر میں یہ خاندان رہتا تھا اس گھر کی چھت ایسی تھی کہ ہم اپنے صحن سے آسانی کے ساتھ اس پر چڑھ سکتے تھے۔

صبح ہوتے ہی اس شریف لڑکی کے کام شروع ہو جاتے اور ساتھ ہی اس ظالم ماں کی ڈانٹ ڈپٹ کا آغاز ہو جاتا تھا۔ وہ برتن بھی دھوتی اور اس بے رحم ماں کے توہین آمیز فقرے اور دل کو چیرنے والی گالیاں بھی سہتی اور ساتھ ہی خوشی کے لیے ترستی اس کی آنکھوں سے نہ تھمنے والے آنسو بھی ٹپکتے رہتے۔ وہ جب بھی مڑ کر کسی کی طرف دیکھتی تو اس کے چہرے پر غم و اندوہ کی پرچھائیں نظر آتیں۔ وہ اپنے پھٹے پرانے دوپٹے سے آنسو پونچھتی تو اس کے معصوم چہرے پر دکھ اور کرب کے ایسے نشان نظر آتے جنہیں دیکھ کر کسی سنگ دل انسان کی آنکھوں میں بھی بے اختیار نمی آ جاتی۔

وہ صحن کو جھاڑو سے صاف کرنے کے دوران اتنی خاموشی سے روتی کہ اس کے رونے کا اندازہ چہرے پر صاف کی ہوئی جگہ پر اس کے آنسوؤں کے نشانوں سے ہوتا تھا کہ وہ رو رہی ہے ، یہ دیکھ کر انسان کا کلیجہ پھٹنے لگتا۔ اور جب اس درندہ صفت عورت کا دل اس ظلم ستم سے بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا تو پھر وہ مار پیٹ پر اتر آتی اور اس وقت میں بھی رونا شروع کر دیتا۔ جب اس کی نظر مجھ پر پڑتی تو وہ مجھے بھی برا بھلا کہنا شروع کرتی اور میں فوراً اس کی چھت سے اپنے صحن میں کود کر اتر جاتا۔

ہمارے گاؤں سے باہر تری کی طرف ایک میدانی علاقہ تھا جو ڈاکے کے نام سے مشہور ہے۔ اب تو اس پر رہائشی مکانات تعمیر کیے گئے ہیں لیکن چند سال پہلے لوگ جون جولائی کے مہینوں میں اپنے مال مویشی چرانے کے لیے صبح ڈاکے میں چھوڑ جاتے اور شام ڈھلنے سے پہلے پھر واپس لاتے تھے۔ ایک دن میں اپنی گائے کو ڈاکے میں چھوڑ کر واپس آ رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لڑکی روتی ہوئی دوڑتی جا رہی تھی۔ وہ بے حد پریشان اور خوف زدہ لگ رہی تھی۔

اس کا پھٹا پرانا دوپٹہ آدھا اس کے کندھوں پر پڑا تھا جب کہ آدھا زمین پر رینگ رہا تھا۔ اس وقت سڑک کچی تھی۔ اس نے ایک ٹھوکر بھی کھائی اور پھر دیوانوں کی طرح دوڑنا شروع کیا۔ میں بہت پریشان ہو گیا۔ میں یہ سوچتا ہوا اپنے گھر آیا کہ وہ دوڑتی ہوئی اتنی پریشانی میں کہاں اور کیوں جا رہی ہے۔ دو تین گھنٹے بعد ایک درد بھری اور ناقابل برداشت خبر ہمارے گاؤں جولگرام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ اس لڑکی نے دریائے سوات میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی ہے اور اس کی لاش کو ”سورئی گٹہ“ میں سے گاؤں کے ایک شخص نے نکالا ہے۔ گاؤں کے لوگ اس افسوس ناک اور دردناک موت پر نہایت افسردہ تھے اور گاؤں کی حالت اس شعر کی مانند ہو گئی تھی:

نہ لوگی شتہ نہ چا لمبہ کڑل تنورونہ دا سہ چل شوے دے

ترجمہ:زندگی کی رونقیں بالکل ماند پڑ گئی ہیں۔ تمام گاؤں میں کسی نے روٹی پکانے کے لیے تندوروں میں آگ نہیں جلائی اور یہی وجہ ہے کہ تندوروں سے دھواں نہیں اٹھ رہا ہے۔ معلوم نہیں کیا حادثہ رونما ہوا ہے۔

چوں کہ میں اس انسانی ظلم اور نا انصافی کا چشم دید گواہ تھا اور اس لڑکی کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ بھی رکھتا تھا، اس لئے فطری طور پراس واقعے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں انتہائی بے قراری کے عالم میں کبھی ماتم کی جگہ تو کبھی بازار چلا جاتا تاکہ اپنے دل کا وہ بوجھ ہلکا کر سکوں جو اس ناقابل فراموش واقعے کی وجہ سے مجھ پر طاری تھا۔ بازار میں کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے جو یہ بتا رہے تھے کہ اس کو سورئی گٹہ نے مار دیا ہے اور پھر وہ تمام لڑکے اس سورئی گٹہ کو دیکھنے کے لیے تری کی طرف روانہ ہو گئے۔

چوں کہ ہمارے گاؤں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، راستہ سنسان تھا اس لئے تری کی طرف ایک چھوٹے بچے کے لیے اکیلے جانا ممکن نہیں تھا، اس لئے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بھی ان لڑکوں کے ساتھ چل پڑا۔ وہاں پتہ چلا کہ لڑکی کی لاش سورئی گٹہ پہنچنے سے پہلے گاؤں کے ایک شخص نے پکڑ کر نکالی تھی۔ دراصل سورئی گٹہ نے اتنا خوف اور وحشت پھیلا دیا تھا کہ گاؤں میں دریائے سوات کی موجوں میں جو شخص ہلاک ہو جاتا تو اس کی لاش اس سورئی گٹہ میں پھنسی ہوئی ملتی جس کی وجہ سے لوگ اس کی موت سورئی گٹہ کے کھاتے میں ڈال دیتے۔

جب میں نے اس چٹان کو قریب سے دیکھا تو وہ ایک بڑی چٹان میں سرنگ کی طرح تھا جہاں ایک بھنور سا بن گیا تھا جس میں دریائے سوات کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ اس لئے اگر کوئی انسان یا جانور دریا میں اس جگہ پہنچ جاتا تو دریا کا تیز بہاؤ اسے اس سرنگ میں دھکیل دیتا اور چوں کہ پھر نکلنے کا راستہ بہت تنگ تھا، اس لئے وہ وہاں پھنس جاتا اور انسان یا جانور زندگی کی بازی ہار جاتا۔ اور پھر سب سے مشکل مرحلہ وہاں سے لاش نکالنے کا ہوتا تھا۔

اس بے چاری لڑکی کو ایک دن مر جانا ہی تھا کیوں کہ جو ظلم اور زیادتی اس کے ساتھ کی جا رہی تھی وہ ناقابل برداشت تھی لیکن میں نے شکر اس بات پر ادا کیا کہ سورئی گٹہ پہنچنے سے پہلے اس کی لاش دریا سے نکالی گئی تھی ورنہ مرنے کے بعد بھی اس کا بے جان جسم اذیت کی سولی پر لٹکتا رہتا جس کو اس کی سوتیلی ماں کے ظالمانہ سلوک نے پہلے سے ہی ادھ موا کر کے رکھ دیا تھا۔

اس وقت میں بہت کم سن تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد میں سوچتا تھا کہ کاش مجھے علم ہوتا کہ یہ لڑکی خودکشی کرنے جا رہی ہے تو میں اسے منع کرنے کی اپنی بھرپور کوشش کرتا۔

ہمارے گاؤں کے قریب دریائے سوات میں سورئی گٹہ ایک خوف اور دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ گویا یہ دریا میں ایک پھانسی گھاٹ کی مانند تھا جو جلاد کے بغیر زندگی سے محروم کر دیتا تھا لیکن اب تو حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ دریا میں اب اس سورئی گٹہ کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments