زوال اخلاقیات



اخلاقیات کا لفظ ”اخلاق“ سے آیا ہے جس کے معنی ”کردار“ یا ”رواج“ کے ہیں۔

اصطلاح میں اخلاقیات سے مراد اخلاقی اقدار کا مجموعہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر باشعور، متحد اور مستحکم معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سماج کی پہچان وہاں کے رسوم و رواج اور اخلاقی اقدار سے منسوب ہوتی ہے، کیوں کہ اخلاقیات کرۂ ارض پر پائے جانے والے ہر معاشرے اور قوم کی بنیاد ہے۔ اخلاقیات کو ہر مذہب کا مشترکہ منشور کہنا غلط نہ ہو گا۔

دین اسلام میں بھی اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

”مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں“

اخلاق قوموں کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، جس طرح ریڑھ کی ہڈی انسانی جسم کو سہارا دیتی ہے لیکن خم، خرابی یا مرض کے باعث اسی ہڈی کی وجہ سے جسم ناکارہ بھی ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی معاشرے میں اخلاق زنگ آلود ہو جاتے ہیں تو معاشرے کی تنزلی کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ افرادی قوت متزلزل ہو جاتی ہے، قوم میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔ اتحاد کمزور پڑتا ہے، قوم کے افراد باہمی انتشار کا شکار ہو کر منتشر ہو جاتے ہیں، اجتماعی رواداری ناپید ہو جاتی ہے، مساوات کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے اور معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ بھی بتدریج زوال اخلاقیات کی زد میں آ گیا ہے۔ مختلف بیماریوں نے قوم کو آن گھیرا ہے۔ ان میں جھوٹ، بددیانتی و ناانصافی اور حیاء باختگی کے عناصر اور مکروفریب وغیرہ شامل ہیں۔ انہی بیماریوں کی وجہ سے قوم کے افراد میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلہ جاری رہا تو قوم کو ذلت و رسوائی سے کوئی نہیں بچا پائے گا کیوں کہ اخلاق کی موت دراصل قوم کی موت ہے۔

ہماری نوجوان نسل اس انحطاط کا شکار ہو چکی ہے۔ اس لئے ہمیں اس کی وجوہات و محرکات اور اسباب پر غور و فکر کرنا چاہیے  تاکہ اس زوال کا سدباب ممکن ہو۔

مشاہدات و تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ زوال اخلاقیات کی سب سے بڑی وجہ تربیت کا فقدان ہے۔ انسان کی پہلی درسگاہ اس کے والدین ہوتے ہیں مگر نہایت دکھ کی بات ہے کہ والدین اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس کے سنگین نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔

یہی بچے جب تعلیمی اداروں کی طرف جاتے ہیں تو ذہنوں میں ڈگریوں کی تصویریں نقش کر دی جاتی ہیں۔ جن اداروں میں شعور و آگاہی، انسانیت کا علم، انسانیت کا درس ملنا تھا، ان اداروں میں بھی تربیت کا فقدان ہے اور یوں تربیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوان اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

نوجوانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ وہ جانے انجانے میں کس غلط سمت پر چل پڑے ہیں۔ نوجوانوں کے پاس رہنما موجود نہیں، جس وجہ سے وہ مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں۔ انتہا پسندی و شدت پسندی جیسے عناصر بھی بداخلاقی کے ماحول کو جنم دینے میں پیش پیش ہیں۔ یہاں مذہبی رہنماؤں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں میں دینی و اخلاقی محبت بیدار کر کے اتحاد کی فضاء قائم کریں تاکہ نفرت کا خاتمہ ہو اور اخلاقی قدریں مضبوط ہوں۔ جبکہ عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا یہ اصول بنا لیں کہ

کچھ اس طرح سے زندگی کو ہم نے آساں کر دیا
کسی سے معافی مانگ لی، کسی کو معاف کر دیا

ان سب عناصر کے علاوہ غیر منصفانہ نظام، طبقاتی تقسیم، بے روزگاری وغیرہ کی وجہ سے بھی اخلاق پامال ہو رہے ہیں۔ ہم اجتماعی طور پر ایک کمزور سے کمزور تر قوم بنتے جا رہے ہیں۔

اگر ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں، قرآن و سنت کے ساتھ مضوط تعلق استوار کریں، تعلیمی اداروں میں تربیتی سیشن منعقد کروائے جائیں، آگاہی مہم کو عملی جامہ پہنایا جائے تو یقیناً ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور نہ صرف دنیا کے نقشے پر ایک با اصول، قوی اور با صلاحیت قوم بن کر ابھریں گے بلکہ عظمت انسانیت کی بہترین مثال بھی ثابت ہوں گے۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments