ہمارے ’بھگت سنگھ‘ چاہتے کیا ہیں!


سوشل میڈیا پر کئی انتہا پسند گروہ (cult) سرگرم عمل دیکھے جا سکتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں ہپیوں کا ایک گروہ (cult) بہت مشہور ہوا تھا۔ ’فری میسنز‘ کے نام سے ایک محدود ممبر شپ والی تنظیم کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کہی جاتی ہیں۔ مغرب میں تمام تر آزادیوں کے باوجود ایک انتہا پسند گروہ کے خواتین و حضرات شہر کی سڑکوں پر وقتاً فوقتاً سرعام برہنہ پریڈ کر کے آج بھی اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ صورت حال اس نہج پر نہیں پہنچی، تاہم انتہا پسند گروہ بہرحال ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔

گلے کاٹنے والے انتہا پسندوں اور ان کے نظریات سے ہم آگاہ ہیں۔ دوسری انتہا پر مادر پدر آزادی کا طلب گار وہ چھوٹا سا گروہ ہے جو واہیات نعروں کے ذریعے عورت مارچ جیسی سرگرمیوں کے مثبت پہلوؤں کو بھی گدلا دیتا ہے۔ اسلام، نظریہ پاکستان اور قومی اداروں سے متعلق ہر مثبت بات انہیں متروک اور ’مطالعہ پاکستان‘ کا شاخسانہ نظر آتی ہے۔

حال ہی میں نواز شریف کے ’نظریاتی‘ ہو جانے کے بعد اس گروہ کی زہر انگیزی بلند آہنگ ہو گئی ہے۔ نیم خواندہ اور اکثر بے روز گار نوجوان فیک ناموں کے ساتھ اسی نام نہاد ’سیاسی بیانئے‘ کے زیر اثرسوشل میڈیا پر خاص افراد اور قومی اداروں کے خلاف غلاظت اگلتے ہیں۔ مغربی دارالحکومتوں میں پناہ گزین ’انڈین کرانیکلز‘ نیٹ ورک کے مہرے ہمہ وقت ان کی پشت پر نظر آتے ہیں۔

اسی گروہ سے وابستہ افراد کی تحریروں، بیانات، حتیٰ کہ ٹویٹس میں چند مخصوص تاریخی شخصیات اور ان سے جڑے واقعات کو بھی سیاق و سباق سے الگ کر کے آئے روز رگیدا جاتا ہے۔ کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کے علاوہ بابائے قوم کی طرف سے جنرل اکبر کو پلائی جانے والی ’سخت ڈانٹ‘ کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک معروف ڈیجیٹل اخبار میں ایک نوجوان کا مضمون نظر سے گزرا جس میں قائداعظم کی اس ڈانٹ کو باقاعدہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

مکالمے قائداعظم ادا کر رہے ہیں، جذبات کسی اور کے چھلک رہے ہیں۔ قائداعظم کے بارے میں جو ہم نے پڑھا اس کے مطابق بابائے قوم نہ تو کسی پر چیختے تھے اور نہ ہی کسی کو ’بری طرح ڈانٹتے‘ تھے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنی آخری سانس تک وہ ہر موقع پر صرف فوجیوں کو ہی نہیں، پوری قوم کو آئین اور قانون کی پاسداری، محنت، امانت، صداقت اور دیانت کا درس دیتے رہے۔

اسی طرح سہروردی صاحب اور شیر بنگال کا مخصوص پیرائے میں بہت تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ڈھاکہ میں سرنڈر کا ذکر تو بہت رغبت سے جا بجا کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں اپنے نواز شریف نے بھی لندن والی جائیداد کے باہر کھڑے ہو کر کچھ ایسی ہی طعنہ زنی کی تھی۔

اس سال بظاہر ایک منظم مہم کے تحت اسی گروہ کی طرف سے 23 مارچ کی پریڈ کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی لغویات کو نظر انداز کر دینا ہی مناسب ہے۔ تاہم افسوس اس وقت ہوا جب سب سے بڑے اردو اخبار میں 23 مارچ کی مناسبت سے لکھا ہوا ایک مضمون نظر سے گزر اکہ جس میں یک رخی خام معلومات کے ذریعے شکوک و شبہات ابھار کر قومی دن کی اہمیت گھٹانے اور حسب معمول قوم کو سول ملٹری خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یوم پاکستان 23 مارچ کو منایا جانا چاہیے یا 24 مارچ والے دن، قرارداد میں ایک ریاست کا ذکر ہوا تھا یا دو سے زیادہ ریاستوں کا؟ اگر ایک سے زیادہ ریاستوں کا ذکر تھا تو کئی سالوں بعد ایک پر اتفاق کیسے ہوا؟ اگر اتفاق ہو ہی گیا تھا تو کیا سالانہ جلسے میں منظور کی گئی قرارداد کو کسی کم درجے کی میٹنگ کے ذریعے منسوخ کیا جا سکتا تھا؟ یہ وہ سب جزیات ہیں جو ہمارے سکولوں میں پڑھائے جانے والے ’مطالعہ پاکستان‘ میں تو شامل نہیں، مگر پاک بھارت تاریخ میں واجبی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ان اور ان جیسے کئی دیگر فروعی اعتراضات کوئی نئی بات نہیں۔

تاہم جہاں تک فاضل کالم نگار کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد کو غائب کیے جانے کے انکشاف کا تعلق ہے تو یہ واقعی ہمارے جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ ہے کہ جنہوں نے قائد کی 11 اگست والی تقریر کا تو سنا تھا، مگر قرارداد پاکستان کو غائب کرنے والی ’سازش‘ سے اب تک لاعلم تھے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بعد میں آنے والی سول یا فوجی حکومتوں کو عورتوں کے معاشرے میں متحرک کردار یا فلسطین سے متعلق قائداعظم کی تاج برطانیہ کو تنبیہ سے کیا اختلاف ہو سکتا تھا۔

دوسری طرف خورشید کمال عزیز جیسے مؤرخین کا خیال ہے کہ لاہور میں منظور کی گئی قرارداد عجلت میں لکھی گئی ایک دستاویز ہے کہ جس میں انہیں کئی تکنیکی جھول نظر آتے ہیں۔ تاریخ دانوں کی تکنیکی نکتہ چینیوں سے قطع نظر، ضرورت ایک الگ مملکت کے تصور اور اس کے حصول کے لئے اس دور میں موجزن قومی جذبے کے درست ادراک کی ہے کہ جس نے چند ماہ میں ’قرارداد لاہور‘ کو ’قرارداد پاکستان‘ میں بدل دیا تھا۔

میں زیر نظر مضمون کو صاحب مضمون کا مخصوص اسلوب سمجھ کر ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر دیتا، تاہم اسی مضمون میں ایک ایسی درفنطنی بھی چھوڑی گئی ہے کہ جس کا ذکر ضروری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ’قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کو برطانوی حکومت کے وفادار فوجی افسروں اور بیوروکریسی نے اپنے شکنجے میں لے لیا، جس کی وجہ سے 23 مارچ کا دن صرف فوجی پریڈ تک محدود ہو کر رہ گیا‘ ۔ ہم نہیں جانتے کہ فاضل مضمون نگار نے یہ رائے کن شواہد کی بنیاد پر قائم کی ہے۔

ہم نے تو یہی پڑھا اور سنا کہ برطانوی فوجی قیادت کے عدم تعاون کے باوجود پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے آزادی کے فوراً بعد کشمیر کا محاذ سنبھال لیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، پاکستان کی سفارت کاری سمیت ہر پاک و ہند جنگ کا بنیادی محرک ہمیشہ کشمیر رہا ہے۔ چنانچہ روز اول سے ملکی وسائل کا بڑا حصہ جو خطے کے عوام کی فلاح پر صرف ہونا چاہیے تھا، دفاعی ضروریات پر اٹھنا شروع ہو گیا۔ بھارت میں قد آور سول قیادت موجود تھی، جبکہ ہمارے ہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہر گزرتے روز طاقتور ہوتی چلی گئی۔

صاحب مضمون ان ’جمہوریت پسندوں‘ میں سے ہیں جو طاقت کا یہ توازن بدلنا چاہتے ہیں۔ تاہم ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی فوجی یا منتخب حکومت ’سیز فائر‘ اور مسائل کے ’غیرفوجی حل‘ کا ابھی خیال ہی دل میں لاتی ہے تو کچھ لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ بغیرکہے سنے خود اپنے آپ کو غداری کا تمغہ عطا کرتے ہیں اور جھٹ سے بھگت سنگھ کا روپ دھار لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments