روح اور شعور: کچھ سوالات



انسانی دنیا کی اکثریت آفرینش سے ہی کچھ غیر مرئی اعتقادات اور پراسرار دکھائی دینے والے کچھ نظریات قائم کیے ہوئے ہیں، وقت اور زمانے گزرنے اور انسانی عقل و شعور کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان اعتقادات کا ارتقاء بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، بعد از موت بھی باقی ذی روح جانداروں کے برخلاف انسانی روح بلکہ جسم تک کے وجود کے نظریات پائے جاتے ہیں، بشارات اور ارشادات سے قطع نظر اس دنیا کی عملی تصدیق زندہ رہتے ہوئے ممکن نہیں لہٰذا اس بارے میں مذہبی اعتقادات کے مطابق ہی یقین لے آنے کا واحد راستہ ہی موجود اور مستعمل ہے۔

اس صورتحال میں اس عالم سے رابطے کا طریقہ ان ارواح اور غیر مادی، شعوری وجودوں نے ڈھونڈنا ہے اور اگر تو واقعی وہ کچھ کسی بھی قسم کا وجود رکھتے ہیں، تو دنیا سے واپس رابطہ کرنا اور اس تمام بیان کردہ ’فنامنا‘ کی تصدیق کرنا بھی ان ہی بیان کردہ، فوت شدہ، غیر مادی شعوری شخصیات کا ہی کام اور ذمہ داری ہے۔ کسی عملی تصدیق کی عدم موجودگی میں یہ ایک تخلیاتی تانا بانا ہی رہے گا۔ زندہ انسان اور ان کا شعور طبعی طور پر دماغ کا مرہون منت ہے ۔ دماغ اپنے افعال کے لیے آکسیجن، خون، مناسب درجہ حرارت اور مختلف مائعات کی مناسب مقدار اور مسلسل فراہمی کا محتاج ہے۔

ایک اہم سوال کہ اگر تو انسانی شعور کوئی علیحدہ یا مستقل حیثیت رکھتا ہوتا، تو یہ صرف اہل علم یا اہل بصیرت تک ہی محدود کیوں ہوتا، بلکہ جس طرح انسان کی باقی تمام حسیات بلاتخصیص سب انسانوں کے پاس موجود ہوتی ہیں تو شعور کی ”دولت“ بھی ہر انسان کے پاس موجود ہونی چاہیے تھی، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ شواہد کی روشنی میں زیادہ امکان یہی ہے کہ انسان اپنے شعور کا خود موجد بھی ہے، اور یہ شعور اس نے لاکھوں برس کے ارتقائی سفر کے دوران بتدریج تخلیق کیا ہے، جیسے کہ مختلف علوم کو مختلف ادوار میں اور مختلف سطحوں پر تخلیق اور دریافت کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔

جذبات اگر ہمارے شعوری وجود یا مائنڈ کا ثبوت ہیں تو یہ جذبات ہمارے علاوہ کئی ادنیٰ جانداروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ پیار، محبت، نفرت، غصہ حسد، رشک جیسے جذبات تو جانوروں کی کئی اقسام میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، خصوصاً ”ہومو سیپئین“ اقسام میں جن کی ایک قسم ہم خود بھی ہیں۔ اس تدریجی ارتقاء سے حاصل کردہ مائنڈ یا شعور کو ہم آج کوئی کہیں اور سے انسان پر نازل ہوئی چیز سمجھتے ہوئے تقدس کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں، تو اس ”عقیدت“ کے عالم میں یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس مائنڈ یا شعوری وجود کے لیے یہ مسند کس نے بچھائی ہے؟

نسل انسانی کی اکثریت جو زندگی گزارنے کے لیے بنیادی قسم کی انتہائی محدود سوچ اور شعور کے حامل ہوتی ہے، ان کے اس ”آفاقی شعور اعلیٰ“ سے محرومی کا سبب بھی ہم کو ڈھونڈنا پڑے گا، اور جس طرح ایک مگرمچھ ہمارے پیمانوں سے انتہائی ناقص وجود اور شعور کا حامل ہے، لیکن وہ اسی خام شعور یعنی انتہائی ضروری بہت بنیادی محدود قسم کی ذہانت اور ہمارے مقابلے میں ناقص جسم کے ساتھ ہم سے کروڑوں برس پہلے سے اسی کرۂ ارض پر کامیابی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اور اسے اپنی بنیادی خوشی یعنی بھوک مٹانا، نسل کشی کرنا کے لیے کسی اعلیٰ شعور کی ضرورت نہیں ، وہ اس کے بغیر بھی ”ہنسی خوشی“ زندگی کامیابی کے ساتھ بسر کر رہا ہے، عین اسی طرح انسانوں کی بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہی ”بنیادی خصوصیات“ کے ساتھ سکون اور اوسط  درجے کی کامیابی کے ساتھ اپنی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں۔

کبھی دنیاوی لحاظ سے بہت کامیاب صاحب زر و جائیداد کا شعوری تجزیہ فرمائیں، تو یہ ہی پائیں گے کہ بڑے فلسفیوں کو پڑھے بغیر حتٰی کہ ان کے نام تک سنے بغیر، اعلیٰ شعوری علوم میں دسترس کے بغیر، وہ کسی مگر مچھ کی طرح، شعوری وجود کے واقفان حال ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی نسبت اکثریت کی نظر میں عام انسانی پیمانوں کے مطابق، زیادہ کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا غالب امکان یہ ہی ہے کہ اپنے مائنڈ یا شعوری وجود کی تخلیق کے خالق خالصتاً ہم خود ہی ہوتے ہیں، اور کسی صنم تراش کی طرح پہلے اپنے ذہن یا شعور کے پتھر کو علم و آگہی تجربہ و مشاہدہ اور بصیرت کے تیشوں سے تراش کر اعلیٰ شعوری وجود کے بت کی شکل میں ایک صنم تراشتے ہیں، پھر اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔

اگر تو یہ شعور اعلیٰ ہمارے جسم سے ماوراء کوئی خارجی چیز ہے تو پھر ہمارے طبعی وجود کے مر جانے اور ختم ہو جانے کے بعد بھی اس شعور اعلیٰ کا کچھ ٹھوس سراغ ملتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے، ہمیں خوش کرنے یا شاید خوفزدہ رکھنے کے لیے اس شعور اعلیٰ کے خارجی وجود کا تذکرہ اولین طور پر ہمیں مذہبی صحائف میں ملتا ہے، اور پھر ان صحائف میں بتائی گئی باتوں کی ہی بنیاد پر مختلف فلسفہ دانوں کی اس موضوع پر سوچ و بچار کا ذکر ملتا ہے، لیکن یہ سب مفکر مذہبی صحائف میں فراہم کی گئیں معلومات کی رسی کے دائرے کے اندر ہی اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑاتے دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا ان کی موشگافیوں اور تاویلات، جن کا کوئی عملی ثبوت حاصل یا دریافت کرنا ممکن نہیں، پر غور کرنا وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

سائنس میں بھی ہم کبھی کاملیت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ لہٰذا اگر تو روح کی شکل میں کوئی خارجی شعوری وجود ہے بھی، تو موجودہ علم کی روشنی میں ہم اس سے مکمل انکار نہ کرتے ہوئے، انہی فلسفیوں کی طرح اندازہ لگاتے ہوئے یہ مثال ضرور دیں گے کہ جس طرح ریڈیو کی نشریات کی لہریں غیر مرئی طور پر ہمارے آس پاس موجود ہیں، لیکن نہ تو ہم ان کو سن سکتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں جب تک ہمارے پاس ورکنگ پوزیشن میں ریڈیو سیٹ نہ ہو ۔ گویا میڈیم ( ریڈیو وہ بھی ورکنگ پوزیشن میں ) کی غیر موجودگی میں لہریں روح کی طرح اپنا اظہار نہیں کر سکتیں۔  اسی طرح جسم، اور وہ بھی زندہ جسم کے ”میڈیم“ یا وسیلہ، کی غیر موجودگی میں روح، مائنڈ یا خارجی شعوری وجود اپنا اظہار کسی طرح سے بھی نہیں کر سکتا۔

یعنی موجودہ علم، سائنس اور ثبوتوں کی روشنی میں روح یا شعور اعلیٰ کے خارجی وجود کا کوئی عملی ثبوت موجود یا دستیاب نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہمیں تمام جانداروں میں یکساں خصوصیات کی بناء پر ان میں بھی ”روح“ کی موجودگی کا اقرار کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں اس سوال کا جواب دینے سے بچنے کے لیے ”ہومو سیپئینز“ میں سے صرف انسان کی روح کو ہی روح اعلیٰ بتاتے ہوئے زیر بحث رکھا جاتا ہے، اور بدنیتی کے ساتھ دیگر جانداروں کی ارواح کو ادنیٰ قرار دیتے ہوئے، ان کی کسی اہمیت بلکہ تقریباً وجود سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں غلاموں اور قیدیوں کو مکمل انسانی درجہ دینے سے انکار کیا جاتا تھا، اور سقراط جیسا دانشور یہ کہنے پر مجبور ہوتا تھا کہ ہر شہر میں دراصل دو شہر ہوتے ہیں۔ ایک آزاد افراد کا اور دوسرا غلاموں کا، اور یہ کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح قدیم قبل از تاریخ کے زمانے میں انسانوں ہی کی طرف سے ”آدم خوری“ کا چلن بھی ہزاروں سال تک جاری رہا۔ کہاں تھا اس وقت انسانی آفاقی تحفہ، شعور اعلیٰ یا مائنڈ، جس کی ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے انسان کے پاس موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments