کیا وفاق المدارس کے ماڈل سے بغیر نقل کے امتحانات


ویسے تو ملک میں اس وقت ہر شعبہ ہی بحران کا شکار ہے لیکن گزشتہ سال تعلیمی اعتبار سے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ اس شعبے پر اب بھی بندش کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے نام پر متوسط اور غریب گھرانوں سے وابستہ بچوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ یہاں یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ صرف غریب ہی کیوں امیروں کے تعلیمی ادارے بھی تو بند رہے؟ واضح کرتا چلوں کہ امیروں کے بچے کافی پہلے ہی آن لائن تعلیم کی جانب گامزن کر دیے گئے تھے۔

غریب کے بچے کے پاس لیپ ٹاپ ہے تو انٹرنیٹ نہیں، انٹرنیٹ ہے تو موبائل نہیں اور دونوں ہیں تو پیکج کرانے کو پیسے نہیں۔ ایسی صورتحال میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب اس نسل کو تعلیم سے دور کر کے تباہ کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔

تباہی کی جانب تو یہ نسل اسی دن بڑھ گئی تھی جس دن اس ملک میں نقل کلچر عام ہوا۔ بڑے بڑے معتبر اور عوام کے سامنے پرہیزگار بنے لوگ اس دھندے میں شامل ہیں اور مکمل حکمت عملی کے ساتھ نسلوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ حکومت اس دھندے پر کیوں خاموش ہے، یہ سمجھ سے بالا تر بھی ہے اور کچھ سمجھ بھی آتا ہے۔

مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورک وفاق المدارس کے امتحانات کا آغاز ہوا ، میڈیا کوآرڈینیٹر کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور خواہش ظاہر کی گئی کہ صحافت سے وابستہ افراد مدارس کے امتحانات کے دوران امتحانی مراکز کا دورہ کریں اور صورتحال کا جائزہ لیں۔ یہ دعوت ہمارے لئے حیران کن تھی کیوں کہ عام طور پر اسکول کالجوں کے امتحانات کے دوران امتحانی مراکز کے دروازے صحافیوں کے لئے مکمل بند ہوتے ہیں۔ داخلے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر کوئی صحافی داخل ہو بھی جائے تو انتہائی بدنظمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دعوت کے مطابق ہم جامعہ بنوری ٹاؤن سے اورنگی ٹاؤن کے مدرسے جامعہ حنفیہ تک گئے اور بغور جائزہ لیا۔  پھر وہاں سے مزید تین امتحانی مراکز کا دورہ کیا۔ امتحانی مراکز کے باہر سیکیورٹی اہلکار نظر آئے اور نہ ہو عوام کا ہجوم۔ انتہائی پرسکون ماحول میں امتحانات جاری تھے۔ مراکز میں داخل ہوئے تو کچھ لوگ گیٹ کے اندر کرسیوں پر بیٹھے تھے ۔ ہمیں لگا کہ شاید اب کچھ بوٹی مافیا کہ لوگ ہمیں مل ہی جائیں گے لیکن معلومات کرنے کے بعد یہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

مراکز میں کمرہ امتحان کی حدود سے باہر بیٹھے افراد اسی مدرسے کے اساتذہ اور دیگر عملہ تھا۔ شفافیت کو قائم رکھنے کے لئے آج انہیں اپنے ہی ادارے کہ اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ امتحانی عملہ دوسرے مدارس اور وفاق سے تعلق رکھتا تھا اور ان افراد کو آج صحن اور دفتر تک محدود کر دیا گیا تھا۔

کورونا وائرس کے پیش نظر حفاظتی تدابیر کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا۔ تمام طلبہ چھ فٹ کے فاصلے سے بٹھائے گئے تھے۔ ایک خاص بات یہ بھی دیکھی گئی کہ طلبہ کو اس ترتیب سے بٹھایا گیا کہ طالب علم کے چاروں طرف اس کو کوئی ہم جماعت طالب علم موجود نہیں تھا۔

یہ بات بھی حیران کن تھی کہ ایک ہی دن میں تمام درجات کے امتحانات رکھے گئے جس سے نقل روکنا بے حد آسان ہو گیا۔ عام طور پر اسکولوں کالجوں حتیٰ کہ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات کے دوران بھی طلبہ کو اپنی نشست تلاش کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ اس مسئلے کا سامنا مدارس کے طالب علموں کو بالکل نہیں کرنا پڑا کیوں کہ تمام امتحانی مراکز میں طلبا طالبات کی نشستوں کا نقشہ بہترین انداز میں مرتب کر کے آویزاں کیا گیا تھا۔

ہمارے ساتھ موجود وفاق المدارس کے میڈیا کوآرڈینیٹر مولانا طلحہ رحمانی نے دورے کے دوران ہمیں امتحانی نظام کی تمام تر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے ہر سینٹر کی رپورٹ دکھائی۔ وفاق المدارس کے کچھ مقرر نمائندے کسی بھی وقت امتحانی مراکز کا دورہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ وہ امتحانی مراکز میں ذرا سی بھی بدنظمی دیکھیں تو رپورٹ مرتب کر کے مرکز کو آگاہ کر دیتے ہیں اور اسی وقت سینٹر ختم کر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی نگران کو طالبات کے سینٹر کا دورہ کرنا ہوتا تو وہ ساتھ اپنی اہلیہ یا ہمشیرہ کو لے جاتے،  خود دفتر میں بیٹھتے اور خاتون اندر کا جائزہ لے کر آگاہ کرتیں۔

25 طالب علموں پر ایک نگراں مقرر تھا جبکہ اس کی معاونت کے لئے بھی عملہ موجود تھا۔ ملک بھر میں ایک ہی پرچہ ایک ہی وقت میں شروع کیا جاتا ہے اور امتحانات کے بعد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں نتائج مرتب کر دیے جاتے ہیں۔ امتحانی عملے کو اپنے واجبات کے لئے بھی سالوں کا انتظار نہ کرنا پڑتا نہ ہی دھکے کھانے پڑتے ہیں بلکہ پرچوں کے بعد ہی انہیں ان کی رقم ادا کرنے کا نظام موجود ہے۔

امتحانی مراکز کا دورہ کرنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ نقل مافیا کا راج نہیں، تمام بورڈ نسلوں کی تباہی کا باعث نہیں بن رہے۔ ہمارے ملک میں بھی امتحانات کا شفاف نظام موجود ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو آنے والی نسلوں کو جہالت کی تاریکیوں سے دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ بلاشبہ وفاق المدارس کے تحت لئے جانے والے امتحانات شفافیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔

وزیر تعلیم اور وزیراعظم عمران خان اکثر ملک میں یکساں تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں۔ ملک بھر میں ایک تعلیمی نظام رائج کرنا ممکن نہیں لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی تعلیمی نظام رائج کر دیا جائے۔ جس طرح اسکولوں کالجوں اور افسوس کے ساتھ اب جامعات میں بھی نقل کا رجحان زور پکڑ رہا یہ آنے والی نسلوں اور ملک کے لئے تباہی کا باعث ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ملک بھر میں وفاق المدارس کے طرز کا امتحانی نظام رائج کرے۔ وزارت تعلیم کو اس ادارے کے افراد کی خدمات حاصل کر کے کہ ملک کے تعلیمی نظام سے نقل کا خاتمہ کرنا ہو گا، اسی میں آنے والی نسلوں اور اس قوم کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments