بحر ہند اور بحر الکاہل عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز


امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چینی صدر ژی جن پنگ اپنے پہلے ٹیلی فون رابطے میں زور دیتے ہوئے آزاد بحرالکاہل کا تحفظ اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، یہی نکتہ نظر بھارتی وزیراعظم نریندر موددی کو دیا گیا تھا کہ ایک آزاد بحر الکاہل کو فروغ دینے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر امن و خوشحالی کے لئے سنگ بنیاد رکھنا ناگزیر ہے۔

ہند بحرالکاہل امریکی مفادات اور قومی سلامتی کے لئے اہمیت کا حامل ہے، سابق پیسفک کمانڈز ایڈمرل فل ڈیوڈسن جو اب انڈو پیسفک کمانڈر ہیں، نے اعلان کیا تھا کہ پینٹاگون شمالی مشرقی ایشیا سے توجہ ہٹا رہا ہے، واضح رہے کہ امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان عسکری و معاشی تعاون کو بڑھانے کے لئے انڈو پیسفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس مقصد کے لئے چہار فریقی مالک کے غیر رسمی اتحاد کے تحت کواڈریلیٹرل سیکورٹی ڈائیلاگ یا ’کواڈ‘ قائم کیا گیا، لیکن عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ اس شراکت داری کے باوجود جاپان اور امریکا میں ممکنہ اندرونی سیاسی مداخلتوں کے باعث مستقبل میں خطرات لاحق رہ سکتے ہیں۔ بالخصوص چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات کو بھی یہی چار ممالک اپنی پیش رفت کو ممکن بنائیں گے۔

دوسری جانب برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے خطے میں سٹریٹجک اتحاد کو فروغ دے گا اور اسے ’دنیا کے جغرافیائی سیاسی مرکز میں تیزی سے بنتا ہوا‘ مرکزی خطہ قرار دے رہا ہے۔

بحرہند کو امریکا چین سے مقابلہ کرنے کے لئے انتہائی ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ اس سے امریکا کی فوجی پیش رفت کو بھی بڑھنے میں مدد ملتی ہے، اگر ایسے یوں کہا جائے کہ مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل صرف ایک وسیع تر بحر ہند کے ذیلی حصے نہیں بلکہ ایشیا میں امریکی طاقت و اثر و رسوخ کا بنیادی جغرافیہ ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ بحر الکاہل کے جدید تصور کو 2007 میں جاپانی وزیر شنزو سامنے لائے تھے، بحر الکاہل اور بحر ہند کو خوشحالی کے سمندر کی اصطلاح کے طور پر ایک ایسے تخیل کو ابھارا گیا جو جغرافیائی حدود کو توڑ کر ایک ’وسیع ایشیا‘ کی الگ شناخت اختیار کرنے والا تھا، 21 ویں صدی کے آغاز میں ہی جاپانی حکمت نے مشرقی ایشیا میں چین کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے خاموشی کے سات بھارت کے ساتھ شراکت کے خیال کو فروغ دیا۔

امریکا میں 2002 میں ایشیا کو امریکی ریاستی کے عمل میں وسیع تر تنظیم نو کا حصہ بنانے کی منصوبہ شروع کر دی گئی تھی جو بتدریج سابق صدر بارک اوباما کے دور میں امریکی دفاعی ماہرین نے بحر ہند کے خطے پر چین کے مقابلے کے لئے آغاز شروع کر دیا گیا۔ بحر ہند اور بحر الکاہل دراصل توانائی کے محفوظ و سہل راستے، تجارتی مصنوعات کے بھرے کنٹینرز کی نقل مکانی دہشت گردی اور چین، بھارت کے درمیان چھوٹی ریاستوں پر اثر نفوذ کی مسابقت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، امریکا کی بحر ہند و بحر الکاہل میں مداخلت سے سابق صدر ٹرمپ کے دور میں ایک ایسا ذریعہ بن گیا کہ امریکا کو علم ہو سکے کہ کون چینی منصوبوں کے لئے اس کا ساتھ دے رہا ہے، بظاہر تو بحر ہندالکاہل ایشیا میں متبادل کے طور صرف چین کے خلاف ایک کھیل سا بن گیا تھا، ٹرمپ انتظامیہ نے ایشیائی پالیسی کے حوالے سے ایک وسیع پیمانے پر بیجنگ کے خلاف ایک اضافی محاذ بنایا اور چین پر دباؤ بڑھانے کے لئے نت نئے طریقوں کو اپنایا.

ٹرمپ انتظامیہ کا گمان تھا کہ اس طرح کرنے سے وہ چین کی توجہ توانائی و معاشی جدوجہد سے دور کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، بائیڈن انتظامیہ کا رویہ بھی ماضی کے مقابلے میں تبدیل ہوتے نظر نہیں آ رہا اور چین کو ایک کونے میں دھکیلنے کے لئے اس کھیل کو مزید توسیع اور اس سے پیدا ہونے والے مضمرات و خطرات پر زیادہ غور خوض کیا گیا۔

بنیادی طور پر اگر یہ سمجھا جائے کہ مجموعی ہند بحر الکاہل کو مشرقی ایشیا میں متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، 1979 میں جب کسی جنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا تو ایشیائی امن میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے نظر آئے، جن میں امریکی فوج کی موجودگی، نیٹو اتحاد اور چین بھی خطے میں بگڑتی صورتحال کے باعث شامل ہو گئے، امریکا کا معاشی انحصار، علاقائی مسائل، کچھ ممالک میں جمہوریت کو خطرات پھیلاؤ کا سبب بنتے چلے گئے۔

اگر تصور کیا جائے کہ دنیا کے سب سے دولت مند، سب سے زیادہ عسکرت پسند اور دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے خطے میں جنگ کی روک تھام کو اولین ترجیح دینا چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس ممالک کے فروعی مفادات نے پورے خطے کو مختلف عوامل کے اعتبار سے تنازعات کا اکھاڑا بنا دیا، جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کو ایک گروپ میں رکھنے کی ناتواں و فروعی مفادات کی وجہ سے ایشیا میں امن کو غیر یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بالخصوص بھارت اور پاکستان کے درمیان الجھے سنگین تنازعات اور بار بار جنگ کے خدشات ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقی ایشیا کے مقابلے میں جنوبی ایشیا کے معاملات گہری نوعیت کے ہیں، جنوبی ایشیا کی سیاست اور شرقی ایشیا کی سیاست کے محرکات جداگانہ ہیں، اس صورتحال میں واشنگٹن کے لئے زمینی حقائق کے مطابق غیر جانب دارنہ پالیسی بنانا مشکل امر ہے، امریکا اس بڑے خطے کو ایک عینک سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن امریکی اسٹیٹ کی پالیسیاں اپنے میگا مقصد کے لئے ان چیزوں کی مکمل نشان دہی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے، جو وہ دیکھ نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بحر ہند و الکاہل کے امن کو ایک خطرناک اندھے مقام میں جاتا محسوس کیا جاسکتا ہے۔

امریکا ایشیا کو اپنے توسیع شدہ تصور کے ساتھ بحر ہند میں اپنی طاقت میں اضافے کا خواہاں ہے، واشنگٹن اپنے ان گنت فوائد میں مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل سے بہت توقعات وابستہ رکھتا ہے، واضح رہے کہ ان خطوں میں پانچ ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو امریکا کے حلیف ہیں۔ سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا، ”بحر ہند اور بحر الکاہل کے امن اور خوشحالی سے امریکی قوم اور پوری دنیا کے مفاد جڑے ہوئے ہیں۔ اسی لیے بحر ہند اور بحر الکاہل خطے کو بہرصورت آزاد اور کھلا ہونا چاہیے۔

“ لیکن ایشیا کے نظرانداز کیے جانے سے صرف یہی خطرہ نہیں ہے کہ واشنگٹن ایشیا کے اپنے توسیع شدہ تصور کے ساتھ چلتا ہے۔ امریکہ کو بحر ہند کے خطے میں اپنی طاقت کو بڑھانے کا خطرہ ہے۔ واشنگٹن کو بہت سارے فوائد حاصل ہیں اور وہ مشرقی ایشیاء اور بحر الکاہل میں بہت سارے مفادات کو برقرار رکھتا ہے، امریکا کمپیکٹ آف فری ایسوسی ایشن کے ذریعہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ مائکروونیشیا، مارشل آئی لینڈ، اور پلاؤ کی باسکیشن اور بندرگاہ تک رسائی کے لئے فیڈریٹ ریاستوں پر خصوصی کنٹرول برقرار رکھتا ہے۔

صرف مشرقی ایشیا میں 000 80، سے زیادہ امریکی فوجیوں اور درجنوں فوجی تنصیبات مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل میں امریکا کو کافی اثر و رسوخ دیتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی کافی دلچسپی کا باعث ہے بحر ہند کے خطے میں امریکہ کا کوئی جنگی اتحاد، ذمہ داریاں یا ایسے مفادات نہیں ہیں جو ایسے اپنے توسیع پسندانہ تصور کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو۔ بحر ہند میں امریکی افواج کو اپنی طاقت کے اظہار کے لئے آبنائے تائیوان کے علاوہ کہیں زیادہ مشکل اور خطروں کا سامنا ہے، امریکا دراصل اپنی ساکھ کو درپیش مسائل کے تحت جنگ سے زیادہ سفارت کاری میدان میں مشغولیت کو ترجیح دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بحر الکاہل کے مقابلے میں بحر ہند کے خطے سے امریکی دھمکیوں میں اتنا اثر نہیں جتنا وہ کسی دوسری حریف مملکت کو دبانے کے استعمال کرتے ہیں۔

پینٹاگون عمومی طور پر دنیا کے کئی ممالک پر سفارت کاری کے بجائے فوجی حکمت عملی کے تحت زیادہ مہلک ہتھیاروں اور مالی اعانت کو استعمال کرنے کو فوقیت دیتا ہے، بحرہند میں امریکا صرف اسی صورت میں تخریبی بن سکتا ہے جب چین کے ساتھ تنازعہ ابھرے، لیکن چین کا اصل مسئلہ ہمالیہ کی سرزمین یا بھارت کے ساتھ ہے اور ان تنازعات سے امریکی مفادات کو کا کچھ  لینا دینا نہیں، بحر ہند میں اگر کسی ممکنہ جنگ کا خدشہ بھی ہو تو اس کا حل کے واحد راستہ تحمل و برداشت ہی قرار دیا جاتا ہے۔

اگر بائیڈن انتظامیہ اس خطے سے ایسی کوئی کارروائیاں کراتی ہیں کہ اس سے چین کو نقصان پہنچے تو امریکی صدر کے لئے نئی مشکلات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ امریکا کے مفادات کے دائرے میں اسے اپنے مسائل سے پہلے نبرد آزما ہونا ہو گا۔ گزشتہ چار برسوں میں تائیوان و شمالی کوریا کے تنازعات کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی، معاشی عدم مساوات اور کوویڈ 19 کی وبا خود اتنے طاقت ور مسائل بن چکے ہیں کہ بائیڈن کو اس خطے میں امریکی بالادستی کے بہت کچھ کرنے کی ضرورت پڑے گی جس کے انہیں بہت وقت درکار ہو گا۔

بحر ہند کو نظر انداز کرنے کی ایسی کوئی دلیل بھی نہیں کہ جب تک توقعات کو حقیقت کے مطابق نہ رکھا جائے تو یہ صورت حال امریکا اور چین کے باہمی معالات میں بھارت کو خفیہ معلومات کی فراہمی پر بھی الجھن کا باعث بنے گا، امریکی حکام بھارت کی مبینہ غلط معلومات پر سمجھ داری کو مقدم رکھے، امریکی حکام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ایسی معلومات جو تشدد کی جانب ابھارتی ہوں ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کئی زیادہ ضرورت ہے۔ اس خطے میں کینیڈا، فرانس اور برطانیہ کی مداخلت بھی خارج از مکان کبھی نہیں رہی۔

دوسرے ممالک علاقائی سلامتی کے زیادہ سے زیادہ ایسی ذمہ داریاں اٹھائیں جس سے کوئی ملک تشدد کے ذریعے متاثر نہ ہو۔ بحر ہند بحر الکاہل کی جغرافیائی اہمیت امریکی حامیوں جیسے جاپان اور آسٹریلیا کے لئے ہے۔ لیکن اتحادی کا جغرافیہ ریاستہائے متحدہ کا نہیں ہے۔ واشنگٹن کو حبس، خوف، یا گروہ سوچ کے خطرات، مفادات اور صلاحیتوں کے بارے میں اپنے تاثرات کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ جسے کوئی چیز کہتے ہیں وہ معمولی بات ہے، لیکن کسی چیز کو کس طرح تصور کرتا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments