قائد کی ہندوستان واپسی اور علی محمد خان کی شعلہ بیانی


ویسے تو حکومت وقت میں ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ پڑا ہے، خصوصاً وزراء پر تو پنجابی کی وہ بات صادق آتی ہے کہ ”جیہڑا کٹو لال اے“ ( جس تربوز کو کاٹیں وہی سرخ ہے ) لیکن دعائیہ کلمات سے آغاز کر کے بڑھکیں لگانے والے علی محمد خان ایک عجیب شخصیت واقع ہوئے ہیں۔

موصوف کی بحث اور تقریریں عجب سماں باندھتی ہیں۔ کہیں موصوف علامہ مولانا کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں پنجابی فلموں کے ہیرو کا کردار نبھاتے ہیں۔ جھوٹ اتنے یقین اور سنجیدگی سے بولتے ہیں کہ سننے والا حیران و پریشان رہ جائے۔ محب وطن ایسے کہ سب دنگ رہ جائیں۔

ایک جگہ ہاتھ میں تسبیح لے کر اور سینے پر پاکستان کا پرچم سجا کر تقریر فرماتے ہوئے جوش و جلال میں یہ خبر دی کہ قائداعظم جب ہندوستانی سیاست سے بددل ہو کر انگلستان سدھار گئے تھے تو مطالعہ پاکستان تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انہیں علامہ اقبال اور لیاقت علی خان واپس لے کر آئے تھے لیکن درحقیقت قائد آنحضور ﷺ کے کہنے پر واپس آئے تھے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ آن دی ریکارڈ بات ہے۔ بقول علی محمد خان قائد نے فرمایا ہوا ہے آف کورس علامہ اور لیاقت علی شہید ہی مجھے لندن سے واپس لائے لیکن صرف یہی وجہ نہیں تھی بلکہ مجھے کسی نے جگایا، دوسری دفعہ جگایا پھر تیسری دفعہ کان میں آواز آئی:

I am Muhammad، your prophet Go to the Indian subcontinent وزیر موصوف نے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ جائیں جا کر ریسرچ کریں۔

جناب کی ریسرچ کی دعوت پر ہم نے کچھ صفحات کھنگالے تو پتہ چلا کہ ایسی کوئی بھی بات قائداعظم کی زندگی اور بہت بعد تک نہیں کی گئی۔ پھر کوئی صاحب یہ دور کی کوڑی لائے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کو قائد نے یہ بات بتائی تھی۔ لگتا ہے علامہ عثمانی نے بھی یہ بات سوائے ان صاحب کے کسی کو نہیں بتائی۔

تحقیق کرنے پر علامہ اقبال کا تو کوئی واضح کردار، بیان یا قائداعظم کی کوئی تحریر و تقریر قائد کی واپسی کے سلسلے میں نہیں ملتی اور بقول علی محمد خان یہ واقعتاً مطالعہ پاکستان کی کتابوں ہی میں لکھا ملا ہے۔ البتہ قائداعظم کے اپنے ایک بیان سے اشارہ ضرور ملاہے جو 7 اپریل 1933 کے اخبار مدراس میل، 9 اپریل کے سنڈے ٹائمز لندن اور کچھ دوسرے اخبارات میں شائع ہوا جو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

”The eloquent persuasion of the Imam left me no escape“ یعنی: امام صاحب کی فصیح ترغیب نے میرے لئے بچاو کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا ”۔۔

۔

 

امر واقع یہ ہے کہ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی محمد علی جناح ہندوستانی سیاست سے دلبرداشتہ ہونے کے بعد کنارہ کش ہو کر انگلستان میں مستقل رہائش کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انہوں نے ہیمپ سٹیڈ کے علاقے میں گھر خرید لیا، بیٹی دینا جناح کو نزدیک پرائیویٹ سکول میں داخل کرا دیا اور وہاں اپنی وکالت بھی شروع کر دی تھی۔

اس دوران مولانا عبدالرحیم درد ایم اے، جو بیت الفضل لندن کے امام تھے، نے قائد سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اس بات کے لئے قائل کیا کہ وہ برصغیر واپس جا کر مسلمانان ہند کی قیادت کریں۔ درد صاحب نے اپریل 1933 میں بیت الفضل کے احاطے ہی میں The Future of India کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کرایا جہاں قائد نے اپنے خطاب میں انہی دنوں سامراجی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے وائیٹ پیپرز پر تنقید کی اور اپنی تقریر مندرجہ بالا الفاظ کے ساتھ ہی شروع کی جو مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔
اس اجلاس کی صدرات برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے سیاست دان Sir Alexander Nairne Stewart Sandeman نے کی تھی۔

درد صاحب اس وقت تک قائد کو ہندوستان واپسی کے لئے قائل کرچکے تھے۔ انہی دنوں نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب اور بیگم رعنا لیاقت علی خان انگلستان تشریف لائے اور اسی بات پر اصرار کیا چنانچہ قائداعظم انگلستان کو چھوڑ کے دوبارہ عازم ہندوستان ہوئے۔

چنانچہ ممتاز صحافی م ش ( میاں محمد شفیع) نے 11 ستمبر 1981 کے پاکستان ٹائمز میں اس بات کا ذکر کیا کہ ”یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد امام لندن ہی تھے جنہوں نے جناب محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آ کر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

پھر ممتاز مورخ اورانسائیکلوپیڈیا قائداعظم کے مصنف جناب زاہد حسین انجم نے بھی اسی انسائیکلوپیڈیا میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

تاریخ سے ہمیشہ ہی کھلواڑ ہوتا آیا ہے اور یہاں تو معاملہ مذہب اور عقیدے کا ہے۔ وہ اس طرح کہ عبدالرحیم درد صاحب کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا اور انہوں نے قائد کو یہ تحریک اپنی جماعت کے اس وقت کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے کہنے پر کی تھی۔ یہی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کشمیر کمیٹی کے صدر جبکہ عبدالرحیم درد صاحب سیکرٹری بھی رہے۔اس کمیٹی کے ایک ممبر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال بھی تھے۔ مذہب اور عقیدے کی بحث اپنی جگہ لیکن خدارا تحقیق کر لیا کریں اور تاریخ مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں کہ اس پاکستان کے لئے ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی اور احمدی برادری کا بھی ہاتھ ہے یہ سب بھی پاکستان کے اتنے ہی شہری ہیں جتنے مسلمان۔

تاریخ اور جذباتیت دو الگ چیزیں ہیں۔اس لئےاگر حضور نبی کریم ﷺ نے قائداعظم محمد علی جناح کو خود ہندوستان واپسی کا ارشاد فرمایا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ قائد اس کا ذکر نہ کرتے اور ہاں اگر علی محمد خان یا کسی اور کے پاس اس کا ٹھوس حوالہ موجود ہے تو ضرور پیش کرے نہ کہ صرف شعلہ بیانی کے زور پر ہی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کرتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments