پی ڈی ایم اور سینیٹ انتخابات



بیس ستمبر 2020 کو پی پی کی زیر صدارت ہونے والی اے پی سی میں ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں، جن میں پی پی، نون لیگ اور جے یو آئی ف سمیت دیگر جماعتیں شامل تھیں،  نے عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ”پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ“ کے نام سے اتحاد بناتے ہوئے حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب صرف چھ ماہ بعد ہی اس اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔  بظاہر تاحال اتحاد قائم ہے مگر عملی طور پہ ”اتحاد“ نظر نہیں آ رہا۔

پی ڈی ایم اتحاد نے ان چھ ماہ میں بھرپور اپوزیشن کرتے پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں جلسے کیے اور ریلیاں نکالی اور حکومت وقت کے خلاف سخت بیان بازی کرتے ہوئے اس کی پالیسیز کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن شروع سے ہی نون لیگ اور پی پی کے موقف میں واضح تضاد نظر آ رہا تھا۔ نون لیگی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت پہ نام لے کر تنقید کی اور انہیں پاکستان کی موجودہ بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ پی پی کی زیادہ تر توجہ حکومت کی طرف تھی بعد ازاں یہ بات بلاول نے بھی کہی کہ نواز شریف نے فوجی جرنیلوں کا نام لے کر جو تنقید کی، اس بارے میں پی ڈی ایم کی کسی میٹنگ میں ڈسکشن نہیں ہوئی تھی۔

اسی تضاد کی وجہ سے یہ ایک غیر فطری اتحاد نظر آ رہا تھا مگر جیسے تیسے اس اتحاد نے خود کو لوگوں کی نظروں اور میڈیا اسکرینوں پہ زندہ رکھا۔ اصل کھیل تب شروع ہوا جب سینیٹ انتخابات کا شور اٹھا، یہی انتخابات عمران خان اور ان کی حکومت کو پہلے دباؤ میں لانے پہ اور پھر دباؤ سے باہر نکالنے کا سبب بنے حتیٰ کہ پی ڈی ایم بھی ان ہی انتخابات کی وجہ سے ہی مشکلات کا شکار ہو گئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار سینیٹ انتخابات میں بہت اہم رہا اور وہ زرداری صاحب جو کافی عرصے سے خبروں سے غائب تھے وہ دوبارہ خبروں کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے پہلے سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار نامزد کر کے سب کو حیران اور حکومت کو پریشان کر دیا پھر گیلانی کو سینیٹر بنوا کر اس سے بھی زیادہ حیران و پریشان کر دیا، اسی ایک انتخاب کی وجہ سے عمران حکومت شدید دباؤ کا شکار نظر آئی بعد میں عمران خان کو اعتماد کا ووٹ بھی لینا پڑا۔

یہ پی ڈی ایم کی چھ ماہ کی سب سے بڑی کامیابی تھی، جس سے حکومت صحیح معنوں میں ہل کر رہ گئی تھی۔ اس ساری کارروائی کے پیچھے آصف زرداری ہی تھے جنہوں نے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو سڑکوں سے پارلیمنٹ میں آنے پہ راضی کیا اور ایک بڑا کھیل کھیلا۔ ورنہ تو نون لیگ اور جے یو آئی پہلے دن سے استعفی دینے اور لانگ مارچ کی بات کر رہے تھے بلکہ خود بلاول نے بھی کہا کہ اجتماعی استعفے سیاسی ایٹم بم ہیں، مناسب وقت پہ استعمال کریں گے مگر نون لیگ اور جے یو آئی کو جلدی تھی۔

سینیٹ انتخابات کے بعد جب چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا موقع آیا تو پی ڈی ایم نے گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے لئے اور جے یو آئی ف کے غفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین کے لئے نامزد کیا مگر پی ڈی ایم کو یہاں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور غالباً یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جو حکومت کو ریلیف دینے اور پی ڈی ایم کو مشکل میں لانے کا سبب بنا۔ گو کہ پی ڈی ایم نے اس پہ عدالت جانے کا اعلان کیا مگر وہاں بھی بات نہ بنی۔

چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد پی ٹی آئی کو ریلیف ملا مگر صحیح معنوں میں اس دن ریلیف ملا جس دن پی ڈی ایم کا 26 مارچ کے لانگ مارچ، جس کا وہ قبل از انتخاب اعلان کر چکے تھے، سے متعلق اجلاس ہوا۔ اجلاس سے جب آصف علی زرداری کے بیانات بذریعہ میڈیا باہر آنا شروع ہوئے تو عوام کو اندازہ ہو گیا کہ ”پی ڈی ایم میں لڑائی ہو گئی ہے“ آصف زرداری نے استعفوں کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کر دیا جو کہ ظاہر ہے فوری ممکن نہیں ہے جبکہ مریم بی بی نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے زرداری صاحب سے سوال پوچھ لیا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ میاں صاحب پاکستان آئیں گے تو ان کی زندگی محفوظ رہے گی۔

ان سب تلخ باتوں اور ان باتوں کے حرف بہ حرف لیک ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مولانا فضل الرحمان جو کہ پی ڈی ایم کے صدر ہیں، میڈیا سے بات کرنے کے لئے دیگر قائدین کے ساتھ باہر آئے تو سب کے چہروں سے پریشانی عیاں تھی اور یہ پریشانی زیادہ واضح ہو گئی جب مولانا فضل الرحمان انتہائی مختصر بات کرنے کے بعد واپس چلے گئے اور مریم بی بی انہیں روکتی رہ گئیں کہ مولانا صاحب میڈیا کی باتوں کا جواب دے دیں۔ اس دن کے بعد سے دونوں جماعتوں میں لفظی جنگ جاری ہے جس میں پی پی اور نون لیگ کی اعلیٰ قیادت یعنی کہ مریم بی بی اور بلاول سمیت دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنما شامل ہو گئے۔  مریم بی بی کے ٹویٹ نے جلتی پہ تیل کا کام کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ کو اب فکر مند ہونا چاہیے کیونکہ اس کا متبادل ڈھونڈا جا رہا ہے گو کہ انہوں نے اس میں کسی کا نام نہیں لکھا تھا مگر سب جانتے ہیں کہ ان کا اشارہ پی پی کی طرف تھا، اس کے جواب میں بلاول نے بھی حساب برابر کیا اور کہا کہ ہمیں اگر سلیکٹڈ کہا جا رہا ہے تو ہماری رگوں میں یہ سلسلہ نہیں ہے البتہ لاہور کے ایک سیاسی خاندان کی یہ تاریخ رہی ہے۔

بس پھر کیا تھا دونوں طرف سے بیان بازی میں شدت آتی گئی مزید اضافہ جب ہوا جب پی پی نے اپنے سینیٹر یوسف گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا۔ اس معاملے میں بھی دونوں جماعتوں کے موقف میں واضح فرق تھا، نون لیگ کا دعویٰ تھا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ نون لیگ کا سینیٹر اپوزیشن لیڈر ہو گا جبکہ پی پی کا کہنا تھا ہماری جماعت اکثریت میں ہے لہٰذا اہوزیشن لیڈر ہمارا ہو گا۔ اس انتخاب کے بعد تلخی مزید بڑھی اور نون لیگ نے گیلانی کو بھی ”سلیکٹڈ“ کہہ دیا۔ گویا جو لڑائی عوام کے مفاد میں عوام کے نام پر شروع کی گئی تھی وہ ذاتی لڑائی بن گئی اور پی ڈی ایم آپس میں ہی عہدوں پہ لڑنے لگی۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے بارے میں سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے ایک ولاگ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پی پی اور نون لیگ میں یہ معاملات طے ہو چکے تھے کہ چیئرمین سینیٹ اگر پی پی کا ہو گا تو اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہو گا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ پی پی اپنے سینیٹر کو چیئرمین منتخب نہیں کروا سکی اب نون لیگ کہتی ہے کہ جو معاملات طے ہوئے تھے وہ برقرار رکھے جائیں جبکہ پی پی کا کہنا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں لہٰذا ری ایڈجسٹ کیا جائے اور یوسف رضا گیلانی کو کم از کم اپوزیشن لیڈر بنایا جائے۔ رؤف کلاسرا نے اپنے ولاگ میں یہ بھی بتایا کہ زرداری صاحب نے اس معاملے میں خود نواز شریف سے بات کرنے کی کوشش کی جو نہ ہو سکی۔  بعد ازاں جب ان کی اسحاق ڈارسے بات ہوئی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ جو بات طے ہو چکی تھی، اسی پہ قائم رہیں۔

میں یہ سمجھتی ہوں کہ پی پی کی یہ حکمت عملی کہ پارلیمنٹ میں رہ کر حکومت کا مقابلہ کیا جائے، کامیاب رہی۔ پی پی نے گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا کے بہت بڑی کامیابی حاصل کی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ۔ محض جلسے جلوسوں سے حکومت شاید اس طرح دباؤ میں نہیں آئی جس طرح سینیٹ انتخابات کے موقع پہ آ گئی تھی ۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ خود عمران خان پانچ سال تک سڑکوں پہ رہے مگر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا، پھر لوٹ کر انہیں پارلیمنٹ ہی آنا پڑا۔ عمران خان اس سب کے عادی ہیں، وہ اس طرح دباؤ میں نہیں آئیں گے لہٰذا کامیاب حکمت عملی یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں رہ کر حکومت کو پریشر میں رکھا جائے۔

اگر یہ دیکھا جائے کہ گزشتہ چھ ماہ میں پی ڈی ایم کی کون سی جماعت نے زیادہ کامیابی حاصل کی تو وہ پی پی ہی ہے اور اس کی وجہ آصف علی زرداری کی ٹھنڈے دماغ سے کام کرنے والی پالیسی ہے۔ پی پی نے گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا لیا، گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بھی بنوا دیا، سندھ حکومت بھی ہاتھ میں رہی، قومی اسمبلی سے بھی استعفے نہیں دیے اور فوج کی اعلیٰ قیادت کا نام لے کر خود کو ان کی نظروں میں ”برا“ بھی نہیں بنایا جبکہ دوسری طرف نواز شریف نے پی ڈی ایم کے پہلے ہی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فوجی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ فوج کی اعلیٰ قیادت کا نام لے کر انہیں ٹارگٹ کیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں، ان کو لانے والوں سے ہے اور یہی لوگ ملک کی بدحالی کی وجہ ہیں۔

نتیجہ کے طور میاں صاحب کا میڈیا سے بلیک آؤٹ ہوا، میاں صاحب منظر سے ہی غائب ہو گئے ہیں جو تھوڑی بہت موجودگی ہے وہ سوشل میڈیا کی حد تک ہے ۔ ایسا کر کے نواز شریف نے اپنے پیر پہ خود کلہاڑی ماری ہے، یہ قدم جو نواز شریف نے پہلے ہی مرحلے میں اٹھایا، وہ سب سے آخری قدم ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد کہنے کو کیا رہ گیا تھا، لہٰذا وہی باتیں ہر تقریر میں دہراتے رہے اور یوں بات کا اثر ہی زائل ہو گیا۔

پی پی نے یہاں پہ بھی ہوشیاری دکھائی اور صرف لفظ ”اسٹیبلشمنٹ“ پہ اکتفا کیا۔ نون لیگ کو سینیٹ انتخابات میں بھی کچھ ہاتھ نہیں لگا، رہی سہی کسر گیلانی کے اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے سے پوری ہو گئی، استعفی دینے نہ دینے کے معاملے میں بھی نون لیگ ”دینے ہیں یا نہیں دینے“ پہ پھنسی ہوئی ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو یہ سوچنا ہو گا کہ ان کا غصہ ان کی سیاست پہ حاوی ہو رہا ہے یا تو غصہ کر لیں یا سیاست کر لیں کیونکہ غصہ ہمیشہ غلط فیصلہ کرواتا ہے اور بعد میں شرمندہ بھی کرواتا ہے انہیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ سیاست ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے ٹیسٹ میچ ہے۔

بہرحال یہ اب تک کی صورتحال ہے، آگے کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔  کبھی لگتا ہے کہ حکومت آگے ہے، کبھی لگتا ہے کہ اپوزیشن آگے ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس ”کبھی آگے کبھی پیچھے“ والی صورتحال میں اپنی مدت پوری کر سکے گی یا نہیں۔ کیونکہ سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، کوئی بھی بات یقینی طور پہ نہیں کہی جا سکتی۔ فی الحال حکومت دباؤ سے باہر آ گئی ہے، دیکھتے ہیں کہ کب تک یہی صورتحال چلتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments