سیاسی پارٹیوں میں منافقت کی روش


پاکستانی سیاست اور منافقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو سیاستدان جتنا بڑا منافق ہے وہ اتنا ہی کامیاب اور سیاسی بساط کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ کو اس بات سے اختلاف ہے تو خود۔ ایک زرداری سب پر بھاری۔ کی نام نہاد سیاسی کامیابیوں کے پیچھے چھپے راز کی کھوج کر لیں، کہیں آپ کو سیاسی دغابازی نظر آئے گی تو کہیں وعدہ خلافی۔ حال ہی میں سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا خلاف ضابطہ اپنے سینیٹرز سے اپنے ہی امیدوار کے نام کے مختلف حصوں پر مہر لگوانا اور پھر ناکام امیدوار یعنی یوسف رضا گیلانی کا اپنے مخالف امیدوار یعنی نو منتخب چیئرمین سینیٹر صادق سنجرانی کے پاس حاضری لگا کر اپوزیشن لیڈر کی درخواست دینا اور پھر مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سنجرانی کے حامیوں سے ووٹ لینا منافقتی سیاست کی وہ بے نظیر مثال ہے جو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے سیاسی جانشین مفادات کے حصول کے لیے قائم کر رہے ہیں۔

تاہم سیاسی پچ کے دونوں جانب کھیلنے کا ہنر صرف پیپلز پارٹی کو ہی نہیں آتا بلکہ جس طرح کرکٹ کے کھیل کے اسرار و رموز سے پاکستانی قوم کا بچہ بچہ واقف ہے اس ہی طرح منافقتی سیاست بھی ہمارے سیاستدانوں کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ اس حمام میں سب ہی ننگے کے مصداق تمام سیاسی جماعتیں کھلے عام منافقت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر کبھی بھی کوئی بھی پینترا بدلنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔

درحقیقت منافقت ہی کی بدولت حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے تو عمران خان نے زندہ لاشوں کے ووٹ کے ذریعے کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کو دہشت گرد تنظیم کا لقب دینے کے بعد سیاسی معاہدہ کر لیا۔ اس پر طرہ امتیاز متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین کو نفیس ترین شخصیات قرار دیا۔ یہ اقتدار کی ہوس بھی انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتی، ایک جانب تو پرویز الہی کو پنجاب کا ڈاکو کہہ کر پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنا دیتی ہے تو دوسری جانب شیخ رشید جو چپڑاسی کی نوکری کا بھی اہل نہ تھا اس کو وزیرریلوے اور وزیرداخلہ کا قلمدان سونپ دیتی ہے۔

منافقت کی راج نیتی صرف حکومتی ایوانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سیاست دان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں منافقانہ رویوں سے باز نہیں آتے اور نہ ہی انہیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ جب وہ مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا علی اعلان دعوی کر کے ان کے ڈائیور بن کر انھیں ائر پورٹ سے اپنی رہائش گاہ لائیں گے تو وہ عوام کو کیا جواب دیں گے۔ یہی سیاستدان جب عتاب کا شکار ہوتے ہیں تو ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہو جاتے ہیں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جیسے سیاسی محاذ پر یکجا ہو جاتے ہیں اور جب سیاسی ڈیل کے بعد ڈھیل ملتی ہے تو توپوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں منافقت کی سیاست صرف بائیں بازوں کی جماعت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دائیں بازو کی جماعتیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام ہو یا جماعت اسلامی، اپنے اپنے مفادات کی خاطر سب نے ہی منافقت کو رواج دیا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال جماعت اسلامی کا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب تو کراچی میں پیپلز پارٹی کے خلاف۔ حقوق دو کراچی ریلی۔ نکال رہی ہے تو دوسری جانب اس ہی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے رہی ہے۔

سینیٹ میں گیلانی کو ووٹ دینے کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ چونکہ سینیٹ میں اپوزیشن میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے اس لیے اپوزیشن لیڈر بننے کا حق اس کے پاس ہے۔ جماعت اسلامی سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے وقت جب پی ڈی ایم کے سینیٹ اراکین کی تعداد حکومتی اتحاد کے اراکین سے زیادہ تھی تو اس وقت انھوں نے اکثریتی اتحاد کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور خود کو انتخاب سے الگ کیوں رکھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں منافقانہ رویوں کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جا سکتی، پاکستانی عوامی بھی اس میں برابر کی ذمہ دار ہے جو اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے منافقانہ رویوں پر ان سے سوال کرنے کے بجائے ان کا دفاع کرنے اور ان پر پردہ ڈالنے میں لگی رہتی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ سیاستدانوں کے منافقانہ رویوں کو عمدہ سیاسی چال قرار دے کر مختلف پلیٹ فارم پر ان کی مداح سراہی کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments