امر جلیل فتووں کی زد میں


جبر کی فضا باشعور لوگوں کے لیے بہت مفید اور سازگار ہوتی ہے کیونکہ انسانی فطرت میں تجسس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور یہ ہر قسم کے جبر اور پابندیوں سے ماورا ہوتا ہے، اسی تجسس کی بدولت حضرت انسان جنت سے نکلا اور ایک ایسے جہاں میں پہنچ گیا جہاں خود کو مضبوط بنانے کے لیے اسے سر توڑ جدوجہد کرنا پڑی اور آج وہ مریخ پر ایک نیا جہان بسانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ تحقیق و انکشافات کی دنیا میں کچھ عناصر شعور کو قید کر کے اس پر مستقل پہرہ بٹھانا چاہتے ہیں اور خود کو ایک مخصوص دائرہ میں قید کر کے نرگسیت کا ایک ایسا خیالی جہان آباد کرنا چاہتے ہیں جس پر کوئی سوال نہ اٹھائے اور اسے ایک طے شدہ فارمولا کے تحت ایک کثیر تعداد بغیر چوں چرا کیے تسلیم کر لے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا بلکہ ہر دور میں کچھ ایسی باغی روحیں ہوتی ہیں جن کے کندھوں پر کلمہ حق کہنے کی بھاری ذمہ داری آن پڑتی ہے اور وہ اس شعوری ذمہ داری کو بخوبی نبھاتے ہیں، کائنات کی شعوری حرکت انہی لوگوں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔

ایسے لوگ معاشرے کے ”فورسڈ کریکٹر“ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ کنڈیشننگ اور بندشوں کے درمیان ان کا دم گھٹنے لگتا ہے اور وہ اپنی ذہنی آزادی کو کسی قیمت پر بھی کھونا نہیں چاہتے ایسے لوگ ہر دور میں متنازعہ رہتے ہیں کیونکہ یہ روایتی راستوں کے مسافر نہیں ہوتے بلکہ روایت شکن ہوتے ہیں اور سچائی کو پانے کے لیے اپنے آزادانہ راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، یہی آزادانہ راستے سماجی تنگ نظروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور وہ ان باغیوں کو ایسے ایسے القابات سے نواز دیتے ہیں کہ انسانیت ہی شرما جائے۔

چند دنوں سے تنگ نظری کی توپوں کا رخ سندھ کے نامور ادیب اور صوفی منش انسان امر جلیل کی طرف ہے، اعتراض ان کا ایک افسانہ بعنوان ”خدا گم ہو گیا ہے“ پر ہے۔ الزامات کی زد میں آنے کی وجہ سے اس افسانہ کو پڑھنے کا اتفاق ہوا مگر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی سوائے شعوری ارتقا کے، دانشور سماج کا آئینہ ہوتے ہیں اور ان کی یہ منشا ہوتی ہے کہ ان کے قارئین بھی آہستہ آہستہ شعوری بلندیاں چڑھیں تاکہ وہ بھی اس نظر سے کائنات کے رموز و اسرار کو پرکھیں جس سے پوری تصویر واضح ہو۔

دانشور قارئین کی آنکھوں پر پڑے ہوئے روایتی جالوں کو ہٹانے میں مدد کرتا ہے اور اس شعوری مچان تک اپنے قارئین کو لے جانے کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جیسے آج امر جلیل کو ادا کرنا پڑ رہی ہے مگر وہ تو اپنے حصے کی گزار چکے کیونکہ اب خیریت سے وہ تقریباً 87 کے پیٹے میں ہیں اب ہم نے گزارنی ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو کس قسم کی فضا اور ماحول کے حوالے کرنا چاہیں گے؟

اس سوال کی تہہ میں ہمارا مستقبل پوشیدہ ہے کیونکہ ارتقا کے آگے ہم کسی بھی قسم کا روایتی بند نہیں باندھ سکتے، خیالات کا بہاؤ بہتے پانی کی طرح ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور انسانی حیات کی چمک دمک خیالات کی رنگارنگی سے ہی برقرار رہ سکتی ہے۔ خدا کی ذات تک پہنچنے کے لیے مختلف راستے ہیں اور ان راستوں کا انتخاب کرنے میں ہر کسی کو آزادی ہونی چاہیے، اس سفر کے راستوں پر چلتے چلتے کچھ لوگ مؤحد، دہریے، اگناسٹک اور اسکیپٹک بن جاتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ تشکیکی رویے روزبروز بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں، جیسے انسان شباہت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ان کے خیالات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

ایک ہی کوکھ سے پیدا ہونے والے جڑواں بچے بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں اس لیے تنوع ہی اس کائنات کی خوبصورتی ہے، ہمیں مختلف الخیالی کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کے اندر بھی اس جذبے کو ابھارنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنے خدا کو اپنے انداز سے پکار سکتا ہے جیسا کہ ایک مشہور حکایت ہے کہ موسٰی اپنے خدا سے ڈائیلاگ کرنے کوہ طور پر جایا کرتے تھے ایک بار راستے میں ایک شخص ملا جو اپنے خدا سے کچھ اس طرح مخاطب تھا ”اگر تم مجھے مل جاؤ تو میں تمہاری خدمت کروں تمہارے سر پر تیل لگاؤں اور تیری آنکھوں میں سرما ڈالوں“ موسٰی نے جب یہ گفتگو سنی تو اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ یہ گستاخانہ جملے ہیں یہ سن کر وہ شخص خاموش ہو گیا۔ موسٰی جب کوہ طور پر پہنچے تو خدا نے کہا کہ جاؤ اس بندے سے کہو کہ وہ جیسے مجھے پکارنا چاہتا ہے پکارے۔

سبق اس حکایت کا یہ ہے کہ ہم کسی کو بھی اپنے طریقے پر چلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے، اقبال نے اپنے انداز میں خدا سے شکوہ کیا تھا اور امر جلیل نے اپنے رنگ میں کیا، وہ جانیں اور ان کا خدا جانے ہمیں درمیان میں نہیں آنا چاہیے۔ ہمیں خدا کا حق خدا کو واپس کر دینا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابھی تک وہ تالے نہیں بنے جو شعور کو مقفل کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments