پاکستان، آئی ایم ایف اور بائیڈن


یہ حقیقت دریافت کرنے کے لئے آپ کو آکسفورڈ یا ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری درکار نہیں کہ امریکہ کی منظوری کے بغیر آئی ایم ایف کسی ملک کو ایک ڈالر بھی فراہم نہیں کرسکتا۔امریکہ کا اس معاملے میں حتمی کردار سمجھنا ہو تو یہ تاریخی حقیقت بھی ذہن میں رکھیں کہ دوسری جنگ عظیم کی لائی تباہی سے نبردآزما ہونے کے لئے برطانیہ کو بھی آئی ایم ایف سے ’’امدادی پیکیج‘‘ کی شدید ضرورت محسوس ہوئی تھی۔

دو عالمی جنگوں کے آغاز اور اختتام تک برطانیہ دُنیا کی طاقت ور ترین سامراجی ریاست شمار ہوتا تھا۔اس کے زیر تسلط ’’ایمپائر‘‘ میں سورج کہیں نہ کہیں ہمہ وقت چمک رہا ہوتا۔امریکہ بھی کسی دور میں برطانیہ ہی کی ایک کالونی یا نوآبادی تھا۔پھر ’’بوسٹن ٹی پارٹی‘‘ ہوگئی۔امریکہ بالآخر خودمختار ملک بن گیا۔برطانیہ اور امریکہ تاہم انگریزی زبان اورAnglo-Saxonثقافت کی بدولت ایک دوسرے کے’’کزن‘‘ شمار ہوتے رہے۔ آج بھی ان دونوں کے مابین ’’خصوصی تعلقات‘‘ قائم ہیں۔

مصر کے صدر جمال ناصر نے اقتدار سنبھالتے ہی مگر نہر سوئز کو قومیا لیا تو برطانیہ کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔فوجی قوت کے استعمال سے مصر کو سبق سکھانے کا ارادہ باندھا۔امریکہ اس فیصلے کا حامی نہیں تھا۔برطانیہ کو رام کرنے کے لئے جب کوئی ترکیب کام نہیں آئی تو آئی ایم ایف نے اُسے ’’امدادی پیکیج‘‘ فراہم کرنے سے انکار کردیا۔

برطانیہ کو اس کی ’’اوقات‘‘ سمجھ آگئی۔سوئز نہرپر مصر کی خودمختاری تسلیم کرلی گئی۔

اس تاریخی تناظر میں یاد رکھیں کہ مارچ 2021میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو 500ملین ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ خطیر رقم اس ’’امدادی پیکیج‘‘ کا حصہ ہے جس کی مجموعی رقم 6ارب ڈالر ہے۔ہمارے خزانے کے حتمی کلیدبردار جناب حفیظ شیخ صاحب نے مذکورہ پیکیج کا بندوست کیا ہے۔6ارب ڈالر کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان نے اپنی معیشت کو دستاویزی وغیرہ بنانے کے لئے چند اقدامات کا وعدہ بھی کررکھا ہے۔ان پر ہوبہو عمل ہوبھی رہا ہوتا تب بھی امریکہ اگر ہم سے واقعتا ناراض ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر اٹھاتے ہوئے 500 ملین ڈالر کی ادائیگی روک سکتا تھا۔ نظر بظاہر اسے ہم سے کوئی مسئلہ نہیں۔متوقع قسط کی ادائیگی لہٰذا یقینی ہوگئی۔

اس قسط کی منظوری کے باوجود یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ہمیں خارجہ امور کی باریکیوں کی بابت آگاہ رکھنے والے محبانِ وطن اصرار کئے جارہے ہیں کہ بائیڈن کے وائٹ ہائوس میں آنے کے بعد سے امریکہ کا ہمارے ساتھ رویہ مخاصمانہ ہوگیا ہے۔

امریکہ کی ہم سے خفگی ثابت کرنے کے لئے نہایت غضب سے دہائی مچائی جارہی ہے کہ پاکستان کو اس ویڈیو کانفرنس میں شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی جس کا میزبان امریکی صدر جوبائیڈن ہوگا۔ مذکورہ کانفرنس میں ماحولیات سے جڑے مسائل نے زیر بحث آنا ہے۔ جنوبی ایشیاء سے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم کو مگر شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔

ہمیں خارجہ پالیسی سکھانے والے ذہن ساز غضب ناک ہوکر یہ بھی یاد دلارہے ہیں کہ موضوع جب ماحولیات ہو تو مقامی یا عالمی سطح کا کوئی سیاست دان اس کا ہمارے وزیر اعظم جیسا ماہر نہیں۔عمران خان صاحب نے پاکستان میں ’’بلین ٹری‘‘ جیسا منصوبہ متعارف کروایا۔اس منصوبے کو ورلڈ اکنامک فورم نے بے تحاشہ سراہا۔انسانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ماحولیات اور موسمی تبدیلی سے جڑے جو مسائل ہیں ان کا حل ڈھونڈنے کے لئے عمران خان صاحب نے زرتاج گل صاحبہ جیسی ایک متحرک وزیر بھی تعینات کررکھی ہیں۔

محترمہ نے 2018کے انتخابات میں ڈی جی خان میں لغاری خاندان کی موروثی سیاست ختم کردی تھی۔شہری متوسط طبقے کی وہ ایک توانا نمائندہ ہیں۔ قدامت پسند معاشرے میں ایسی خاتون کا ایک تمن دارخاندان کو پچھاڑنا مزید اہمیت کا حامل ہے۔

ان کی توانائی کو ماحولیات سے متعلق جدید تر خیالات فراہم کرنے کے لئے اٹک کے ایک نوجوان اور انتہائی پڑھے لکھے سیاستدان-ملک امین اسلم صاحب-وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات بھی ہیں۔ محترمہ زرتاج گل اور ملک امین اسلم صاحب کی تعیناتی ماحولیات سے جڑے مسائل کا ازالہ ڈھونڈنے کے لئے عمران خان صاحب کی پرخلوص لگن کا بھرپور اظہار ہے۔جوبائیڈن نے مگر اسے سراہنے سے گریز کیا۔ہمارے وزیر اعظم کو ماحولیات کے موضوع پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں مدعو ہی نہیں کیا۔

پاکستان کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کرنے کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے خارجہ پالیسی کے امور کی بابت میرے جیسے جاہل کی رہ نمائی فرماتے اساتذہ نے بالآخرطے یہ کیا ہے کہ جوبائیڈن ہم سے چین کے ساتھ دوستی کی وجہ سے ناراض ہے۔ بتدریج ہمیں یہ فیصلہ کرنے کو مجبور کررہا ہے کہ ہم واشنگٹن کو واشگاف الفاظ میں بتادیں کہ ہم اس کے دوست ہیں یا چین کے یار۔

دو ٹکے کا ریٹائر رپورٹر ہوتے ہوئے میں یوٹیوب پر چھائے ماہرین امور خارجہ کی رائے آنکھ بند کرتے ہوئے تسلیم کرلیتا۔ میری بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ جوبائیڈن نے مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لئے چین کوبھی مدعو کررکھا ہے۔ماحولیات کے عالمی سطح پر ’’مستند‘‘تسلیم کئے بے تحاشہ ’’ماہر‘‘ عموماََ اس الزام کو دہراتے رہتے ہیں کہ ماحولیات کو تباہ کرنے میں عوامی جمہوریہ چین بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔

کوئلے کے استعمال سے بجلی بناتا ہے۔دریائوں پر بند باندھتے ہوئے مبینہ طورپر ان کے قدرتی بہائو کو تبدیل کررہا ہے۔چینی صدر کا ون بیلٹ ون روڈ والا خواب بھی اس ضمن میں تباہی پھیلانے کا موجب ٹھہرایا جارہا ہے۔ایسے الزامات کے باوجود چین کو بائیڈن نے بڑے چائو سے اپنی تجویز کردہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔پاکستان کو لیکن محض اس ملک کے ساتھ دوستی کی وجہ سے نظرانداز کردیا گیا۔

چین کی وجہ سے بائیڈن کی پاکستان سے خفگی ثابت کرنے کے لئے یہ حقیقت بھی یاد دلائی جارہی ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد سے اس نے ہمارے وزیر اعظم سے ابھی تک ٹیلی فون کے ذریعے روایتی خیر سگالی والی گفتگو بھی نہیں کی ہے۔بھارتی وزیر اعظم سے جبکہ وہ دو مرتبہ ایسی گفتگو کرچکا ہے۔

ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو تاہم اگر دو ممالک کے مابین رابطوں کی اہمیت طے کرنے کا اصل معیار ہے تو یوٹیوب چینلوں کے ذریعے مجھ جیسے جاہلوں کو خارجہ امور کی بابت آگاہ رکھنے والے اساتذہ نجانے کیوں فراموش کئے ہوئے ہیں کہ حال ہی میں امریکی وزیر خا رجہ اور وزیر دفاع نے پاکستان کے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کی ہے۔

وہ دونوں پروٹوکول کے روایتی تعلقات کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے آرمی چیف سے براہِ راست رابطے کو اس لئے مجبور ہوئے کیونکہ پاکستان کے ہمسائے میں ایک ملک ہے۔ نام ہے اس کا افغانستان ۔

گزشتہ 20برسوں سے امریکہ اپنی فوجی قوت کے ذریعے اس ملک کو ’’جمہوری اور مہذب‘‘ بنانے کی کاوشوں میں مصروف تھا۔بالآخر تھک گیا۔طالبان سے مذاکرات کو مجبور ہوا۔دوحہ میں سجائی مذاکرات کی میز پر ان کی موجودگی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔

دوحہ مذاکرات کے اختتام پر طے ہوا کہ امریکہ اپنی افواج یکم مئی 2021تک افغانستان سے باہر نکال لے گا۔اقتدار سنبھالنے کے بعد بائیڈن کو لیکن دوحہ میں طے ہوئے وقت کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء Toughیعنی مشکل محسوس ہورہا۔ اس کی خواہش ہے کہ مجوزہ انخلاء کی مدت کم ازکم چھ ماہ تک بڑھادی جائے۔اس ضمن میں ہماری عسکری قیادت سے رابطے ہورہے ہیں۔آئی ایم ایف سے 500ملین ڈالر والی قسط کا اجراء بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

مذکورہ رابطے اور فیصلے واضح انداز میں عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکہ جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی افغانستان کی وجہ سے پاکستان کا ایک حوالے سے ’’محتاج‘‘ ہے۔ہم اس کی محتاجی کو ذہانت سے بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ سے مزید کئی رعایتیں حاصل کرسکتے ہیں۔گھبرانے کی لہٰذا ضرورت نہیں۔بائیڈن کی تجویز کردہ عالمی کانفرنس میں عمران خان صاحب شریک ہوتے تو دیگر ممالک کو ماحولیات کے حوالے سے اپنی فراست کی بدولت سو طرح کے نئے خیالات فراہم کرسکتے تھے۔بائیڈن اگر ان سے محروم رہنا چارہا ہے تو پنجابی محاورے کے مطابق ’’خصماں نو کھائے‘‘ ۔ہم اس کی بابت واویلا کیوں مچائیں؟!

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments