مسلم لیگ نون مفاہمت اور مزاحمت کی کشمکش


مسلم لیگ نون کے ساتھ جو کچھ پیپلز پارٹی نے کیا وہ یقینی تھا۔ جو لوگ بھی سیاست کا سمجھ بوجھ یاسیاسی ادراک رکھتے ہیں ان کو اندازہ تھا کہ یہ دونوں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر استعمال کر کے اقتدار کی سیاست میں حصہ داری چاہتی ہیں۔ اس لیے اب مسلم لیگ نون اب پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی ماتم کر رہی ہے وہ اس کی سیاسی ناتجربہ کاری اور جذباتیت پر مبنی سیاست یا سیاسی مجبوریاں تھیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے سیاسی کارڈ یا سیاسی چالوں کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کو ایک سیاسی دھچکہ پیپلز پارٹی سے لگا ہے اور اس پر مسلم لیگ نون کا بڑا ردعمل بھی جائز، لیکن مستقبل میں کچھ ایسا ہی زخم ان کو مولانا فضل الرحمن سے بھی مل سکتا ہے۔ کیونکہ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو اپنے سیاسی حق میں استعمال کر سکتی ہے تو یہ ہی کام مولانا فضل الرحمن بھی کر سکتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ نون کی تنقید اپنی اتحادی جماعتوں پر جائز ہے، یقیناً نہیں۔ کیونکہ خود مسلم لیگ نون بھی پس پردہ اسٹیبلیشمنٹ کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی معاملات کو طے کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، یہ عمل اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن اسٹیبلیشمنٹ سے عملی طور پر مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہے۔ اتحادی سیاست کا عملی تجربہ یہ ہی بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اتحادکے مقاصد سے زیادہ اپنے جماعتی یا ذاتی مفادکو اہمیت دیتے ہیں۔ برحال پیپلز پارٹی کے سیاسی کارڈ کے بعد اب کافی حد تک مسلم لیگ نون جوابی سیاسی حکمت عملی کے تحت خود کو حقیقی حزب اختلاف اور سیاسی سول بالادستی کی جنگ کے بیانیہ سے جوڑ رہی ہے۔ اس کے بقول وہ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی یہ سیاسی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مسلم لیگ نون کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ڈی ایم میں رہتی ہے یا اس کے ساتھ چلتی ہے تو اسے یقینی طور پر اپنی مزاحمت کی سیاست کو مفاہمت کے انداز میں تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا مفاہمتی کارڈ زیادہ غالب ہوگا۔ لیکن اگر مسلم لیگ نون کو پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنی حکومت مخالف تحریک چلانی ہے تواس پر ان کا ایک بڑا انحصار مولانا فضل الرحمن پر ہوگا اور دوسرا اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی خود کو حقیقی حزب اختلاف کے طور پر پیش کرنے کے لیے کچھ چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر متبادل قسم کی حزب اختلاف کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ یعنی مستقبل کی ایک جھلک یہ دیکھنے کو بھی مسل سکتی ہے کہ کون حقیقی حزب اختلاف ہے اور کون اسٹیبلیشمنٹ کے سہارے خود کو حزب اختلاف کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

مسلم لیگ نون نے اگر اپنی جماعتی سیاسی طاقت کی بنیاد پر ”بیانیہ کی جنگ“ لڑنی ہے تو اس کا ایک بڑا مسئلہ اس کا اپنا جماعتی داخلی بحران ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ نون متحد ہے اور اس میں کوئی بڑی تقسیم نہیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلم لیگ نون سے جڑے اہم راہنماؤں میں حکمت عملی کی بنیاد پر ایک بڑی تقسیم اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو یا مفاہمت کے درمیان موجود ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں پارٹی میں نواز شریف اور شہباز شریف کے حامیوں کے درمیان سیاسی حکمت عملی یا مزاحمت اور مفاہمت کے درمیان واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔

شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز شریف واضح طور پر اور کھل کر نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی جو ان کے بقول ٹکراو پر مبنی ہے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ فی الحال ہمیں نواز شریف اور مریم نواز پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفوں کے نہ دینے پر کافی سیاسی برہم نظر آتے ہیں۔ لیکن اول تو یہ بات کافی حد تک یقینی ہے کہ مسلم لیگ نون اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا کارڈ کھیل کر سیاسی خود کشی نہیں کرے گی، لیکن اگر اس نے اس کارڈ کو کھیلنے کی عملی کوشش کی تو اسے خود اپنی جماعت کے اندر سے مزاحمت دیکھنے کو ملے گی۔ کیونکہ مسلم لیگ نون میں ایک بڑا دھڑا استعفوں کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کرے گا۔

اصل میں اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف اگر واقعی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ نون نے کوئی بڑی سیاسی تحریک چلانی ہے تو اس کے لیے پہلے ان کو اپنے داخلی نظام کی کمزوریوں کا ضرور تجریہ کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ایک کمزور سیاسی و جماعتی ڈھانچہ اور مختلف سطحوں پر تضادات کی موجودگی میں کسی بڑی تحریک کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب نواز شریف اور مریم نواز کھل کر اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو اور پارٹی کے صدر شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان کی تحریک میں سیاسی حکمت عملی کا یہ تضاد خود ان کی سیاسی ناکامی کے لیے کافی ہے۔ مریم نواز نواز شریف کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہیں اور ان کی مقبولیت بھی کافی بہتر ہے۔ ان کے بقول اگر کسی نے نواز شریف کے بعد پارٹی سے بات کرنی ہے تو اسے مجھ سے ہی بات کرنا ہوگی اور میں ہی فیصلہ کا اختیار رکھتی ہوں۔ یہ سوچ یقینی طور پر شہباز شریف کو قبول نہیں ہوگی۔

مریم نواز کی مقبولیت کے باوجود ان کی جذباتیت پر مبنی سیاست اور فوری ردعمل دینے کی حکمت عملی نے ان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ اسی طرح نواز شریف اور مریم نواز کی اداروں اور ان کے سربراہان پر براہ راست تنقید پر ان کی اپنی پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ ان کے بقول مریم نواز کا یہ انداز پاپولر کارڈ رتو ہو سکتا ہے لیکن اس سے سیاسی طو رپر ان کو بھی اور ان کے اہم اتحادیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اب اگر پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ نون فاصلے رکھتی ہے یا اسے پی ڈی ایم سے علیحدہ کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت گرانا یا عمران خان کو گھر بھیجنا کم از کم پارلیمنٹ سے تو ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں تک عوامی جدوجہد یا ایسی سیاسی تحریک کا عملی منظر پیش کرنا جو حکومت کی رخصتی کا سبب بن سکے، اس کا امکان بھی سولو فلائٹ میں ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کا جانا اسی صورت ہی ممکن ہوگا جب اسٹیبلیشمنٹ کچھ تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

مسلم لیگ نون اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ پوری پی ڈی ایم کو اپنی سیاسی ڈکٹیشن کی بنیاد پر چلاسکتی ہے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ پہلے ہی مولانا فضل الرحمن کو گلہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں لیکن بڑے فیصلے یا اس اتحادکی سیاسی اجارہ داری میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پیش پیش ہے اور ان کو بہت سے امور میں سیاسی طور پر تنہا رکھا جاتا ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو باہر نکال کر بھی پی ڈی ایم کو اپنے ایجنڈے پر چلانا مسلم لیگ نون کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو لب ولہجہ نواز شریف اور مریم نواز کا ہے اس پر ماسوائے فضل الرحمن کے باقی ساری پی ڈی ایم کی قیادت کافی فاصلے پر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں دس جماعتی اتحاد میں شامل جماعتیں اس ٹکراو کے بیانیہ کو مسلم لیگ نون میں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ کہتے ہیں۔

عملی طور پر مسلم لیگ نون مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کی ایک بڑی کامیابی دو بڑی سیاسی سطح پر موجود مضبوط جماعتوں کا باہمی اشترا ک تھا۔ لیکن اب پیپلز پارٹی کے بعد یہ باہمی اشتراک کمزور بھی ہوا ہے اور اپنی اہمیت بھی کھورہا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ نون کے سیاسی آپشن محدود ہیں اور اس تن تنہا کوئی بڑی جنگ لڑنی ہوگی، لیکن یہ جنگ داخلی تضاد کو ختم کیے بغیر جیتنا ممکن نہیں ہوگا اور آنے والے دنوں میں جماعتی سطح پر مزاحمت اور مفاہمت کے درمیان خود مسلم لیگ نون میں ٹکراو ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments