ایزی پیسہ اور دوسری ایپلیکیشنز چلانے والی کمپنیاں اور صارفین کے حقوق


گزشتہ دس دنوں میں بیس مرتبہ ایک ہی طرز کا واقعہ متعدد مرتبہ رونما ہوا۔ ہر بار کی طرح لب و لہجہ مختلف مگر مدعا ایک ہی تھا۔ لہذا اب نفسیاتی طور پر میں آغاز ہی سے بھانپ لیتا ہوں کہ ٹیلیفون پر دوسری جانب سے شروع ہونی والی گفتگو کون سا موڑ اختیار کرنے جا رہی ہے۔ ابتدائی تجربات کے بعد دوسری طرف کا آدھا موقف سنتے ہی میں بات ختم کر دیتا ہوں۔ بات ختم کرنے کا واحد مقصد وقت کو بچانا ہوتا ہے۔

سن 2014 میں خاکسار ایک چھوٹی سی نوکری کیا کرتا تھا۔ ایک دن ہمارے آفس میں ایک سیلزمین آیا اور اس نے غیر روایتی انداز میں ”ایزی پیسہ“ سے متعلق اہم ترین معلومات اور فیچرز بتانا شروع کر دیے۔ سیلزمین کی گفتگو کا انداز دلکش تھا جس میں کمال لفاظی کا انتخاب کیا گیا۔ مذکورہ شخص نے کمرے میں موجود تمام لوگوں کو قائل کیا کہ ”ایزی پیسہ“ مستقبل قریب میں اہم ترین حیثیت اختیار کرنے جا رہا ہے تاہم تمام افراد کو کھاتہ ( اکاؤنٹ) کھلوانے کی تاکیدی پیشکش کی۔ میں ذرا مزاحمتی ذہن رکھتا ہوں جسے دیکھنے والے عموماً خبطی سمجھتے ہیں پس مذکورہ کمپنی کے نمائندے سے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ نمائندے نے کمال خوش اسلوبی سے جوابات دیے اور ساتھ ہی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا ”سر فری بنا رہے ہیں آنے والے دنوں میں پیسہ لگیں گے کھاتہ کھلوانے کے“ ۔

جملہ سنتے ہیں میری زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلے کہ ”جب ضرورت ہوئی تو پیسے لگا کر کھاتہ کھلوا لیں گے فی الوقت ضرورت نہیں“ ۔ اس کے بعد سیلزمین نے برا سا منہ بنایا اور نکلتا بنا۔

آج قریباً لگ بھگ سات برس بعد میں ”ایزی۔ پیسہ“ ایپلیکیشن باقاعدگی سے استعمال کرتا ہوں۔ میری ذاتی رائے کے مطابق مذکورہ ایپلیکیشن بہترین ہے۔ سفر کے دوران آنے والے بلز بھی اسی سے ادا ہوتے ہیں۔ رقوم کی ترسیل میں آسانی کے ساتھ کے ساتھ ملک بھر میں کسی بھی علاقے میں موجود کسی بھی بینک میں بلاجھجک پیسے آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ابا جی لاہور میں ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے اور ہر ماہ منی آرڈر کے ذریعے گھر پیسے بھیجا کرتے تھے۔ اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں ہم موبائل فون کی مدد سے رقوم وصول اور ارسال کرتے ہیں عام فہم زبان میں اسے موبائل بینکنگ یا بنکاری کہا جاتا ہے۔ جوں جوں جدت میں تیزی آتی جا رہی بالکل اسی طرح استعمال بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تار کے ذریعے بھیجی جانے والی رقوم بنکوں کی طرف راغب ہوئی اور پھر اب جدید بینکنگ، ای بینکنگ سے ہوتی ہوئی موجودہ ٹیکنالوجی موبائل بینکنگ تک آن پہنچی۔

بطور انسان سہولت سبھی کو راس آتی ہے ہمیں بھی آئی لیکن بطور قوم ہم نے سہولت کو سہولت سمجھا ہی کب ہے۔ ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال کو دیکھ کر سہولت پسند انسانوں نے آسان کمائی کے طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیے۔ آپ میں سے بیشتر کو یاد ہوگا کہ جب موبائل فون نیا نیا آیا تو انجان ٹیلی فون کالز پر جعلی انعامات تقسیم ہونا شروع ہوئے اور سادہ صفت لوگوں کو لوٹا گیا۔ یہ سلسلہ جب عوام میں مقبول ہوا تو نوسربازوں نے بھی ترقی کی اور فراڈ کے نئے طریقے اپنائے۔ اب ڈیجیٹل فراڈ ہو رہے ہیں۔ نوسر بازوں پر مشتمل یہ گروہ فشنگ (Phishing ) کی مدد سے اپنا دھندہ چمکائے جا رہے ہیں۔ طریقہ واردات بہت ہی سادہ ہے اور سادہ لوح انسان ہی ان کا شکار بنتے ہیں۔

کسی بھی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے مذکورہ گروہ یہ جاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ آپ کے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں پیسے موجود ہیں۔ دوسرے مرحلے پر آپ کو انجان نمبر سے ایک پیغام موصول ہوتا ہے جس میں تمام تر معلومات جعلی ہوتی ہیں۔ موصول شدہ پیغام میں ایک عدد جعلی ٹریکنگ آئی ڈی، جعلی رقم اور جعلی ارسال کنندہ کا نام تحریر ہوتا ہے۔ یہاں ایک اہم بات بھی بتاتا چلوں کہ جعلسازی کی یہ کوشش صرف ان ہی اکاؤنٹس کے حامل صارفین پر کی جاتی ہے جن کے کھاتوں میں پیسے موجود ہوتے ہیں۔

تیسرے مرحلے میں بذریعہ کال آپ کو انتہائی عاجز اور پینڈو لہجے میں گزارش کی جاتی ہے کہ ”میں فلاں بات کر رہا ہوں میں نے اپنے گھر پیسے بھیجنے تھے اور آپ کو بھیج دیے ہیں۔ خدا کے واسطے میرے پیسے لوٹا دیں۔ اگر آپ مزاجٍ سادہ صفت واقع ہوئے ہیں تو آپ حامی بھریں گے اور ایپلیکیشن میں لاگ ان کریں گے جو کہ جعلسازوں کو کامیاب بنانے کے لیے کافی ہوگی اور آپ کی رقم آپ کے پاس سے غائب۔

2014 میں اس سیلزمین کی کہی جانے والی تمام باتیں درست ثابت ہوئی مگر ایک بات کا ذکر کرنا وہ صاحب شاید بھول گئے تھے کہ مستقبل قریب میں کچھ نوسرباز کمپنی کی فراہم کردہ ایپلیکیشن سے عام لوگوں کو بے وقوف بھی بنایا کریں گے۔ ضروری نہیں کہ سب کے سب لوگ بیوقوف ہی بنیں کچھ لوگ سمجھدار بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں میرا موقف ذرا سا مختلف ہے۔ دس دنوں میں بیس ٹیلیفون کالز میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں سوائے وقت کے ضیاع کے اور کوفت کے بالکل اسی طرح جیسے آئے روز کمرشل کمپنیوں کے پیغامات کرتے۔ حالیہ ایام میں گاڑی میں سفر کرتے ہوئے مجھے ایسی ہی ایک کال موصول ہوئی تو میں نے ڈانٹ کر فون بند کیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ان کے بھائی کے اکاؤنٹس سے تیس ہزار روپے اسی جعلسازی کے ذریعے نکالے گئے تھے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ کمپنی کی تیار کردہ ایپلیکیشن تو استعمال ہو رہی ہے نا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے صارفین لوٹے جا رہے کہ نہیں۔ کمپنی صارف کے کھاتے کی رازداری کی ذمہ دار تھوڑی ہے۔ ان کی اپنی پروڈکٹ چلنی چاہیے صارف جائے بھاڑ میں۔ اور ہاں ایپلیکیشن میں کون سی کمزوریاں (Loopholes ) ہیں جس سے صارف کے کھاتے کی تمام تر معلومات ایک فراڈ گروہ کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ کمپنی کو اپنے سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ فشنگ کا یہ سلسلہ تو اختتام پذیر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments