ہماری گلی کی کتیا


پتھر اٹھا اور جلدی سے مارکر بھاگ اورسٌن پلٹ کربھی نہ دیکھیو ورنہ گزرنے نہیں دے گی۔ ابھی یہ آواز ہمارے کانوں تک پہنچی تواپنے کمرے کی کھڑکی پر نسیم حمید کی طرح دوڑ لگائی، جب دوڑ کم لگی تو اپنی سائیز کی چھلانگ مار کرمعاملے پر پہنچنے کی سرتوڑ ‌کوشش کری، جھانک کر باہردیکھا تو دوعدد دس بارہ سال کے بچے اپنے ساتھی دوست جو ان سے تھوڑا فاصلے پر رٌکا ہوا تھا، اور اس کے سامنے ہماری گلی کی پالتو کٌتیا اپنے دوعدد چھوٹے بچوں کے ساتھ بیچ روڈ پراپنے بچوں کی حفاظت اور پہرہ دینے والے ایکشن میں چست چٌوکنا غراتے ہوئے ان انسان کے بچوں پربھونک رہی تھی کیوں کہ ایک بچے کے ہاتھ میں کچھ پتھرموجود تھے اورزیادہ بھونکنے کی وجہ سے یہ انسان کے بچے کافی ڈرے ہوئے نظر آرہے تھے۔

ہم نے اپنی کھڑکی سے ان اشرف المخلوقات کی اولاد کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کیوں اس بے زباں کو مار رہے ہو؟ کیا ہم نیچے آ کر تم سب کو اسی طرح سے پتھر ماریں؟ ہماری آواز سٌن کرایک بچے نے ہم سے چڑتے ہوئے جواب دیا کہ آنٹی جی یہ کتیا ہمیں گزرنے نہیں دے رہی اور آپ ہم کو ہی مارنے کا کہہ رہی ہیں۔

ہم نے بھی اوپری منزل کی کھڑکی سے سخت لہجے میں بولے کہ جب یہ کتیا اپنے بچوں کے ساتھ آرام سے بیٹھی تھی تو کیوں اسے تنگ کیا؟ پتھر کیوں اٹھایا ہے؟ ایک کام کرو کتیا سے دور دوسری طرف سارے پتھر پھینک دو اور دیوار کے کنارے سے بغیر ڈرے اوربغیراسے تنگ کرے گزر جاؤ یہ تم کو کچھ نہیں کہے گی۔ ادھر بچوں کو ہماری بات سمجھ نہیں آ رہی تھی اور کتیا ان کے مزید قریب آکرزور زور سے بھونکنے لگی، اب تو سارے بچوں کی حالت مزید بگڑی، ہم پھر زور سے بولے کہ سارے پتھر دوسری طرف پھینک دو یہ جانے دے گی، جس کے ہاتھ میں پتھر تھے اس نے ہماری بات مانی اورکچھ پتھربالکل دوسری سمت پھینک دیے، یہ دیکھتے ہی کٌتیا نے بھونکنا کم کر دیا، ہم نے فوراً کتیا کو اپنی کھڑکی کی طرف چٌمکار کربلانا شروع کر دیا تاکہ ابن آدم کے بچوں کو بھاگنے کے لیے راستہ صاف مل جائے لیکن جاتے جاتے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے آپس میں بولتے گئے کہ ”ارے یہی آنٹی ان کتوں کو بچا لیتی ہیں ورنہ آج تو یہ کتیا ماری جاتی۔

ہم نے بھی یہ سن کر زور سے کہا کہ آخرتم سب میں جانور ہے کون؟ مارے غصے کہ ہم اپنے منہ میں ہی بڑبڑاتے رہ گئے ساڈا کتا کتا، تاڈا کتا ٹومی ابھی یہ الفاظ ہمارے منہ میں ہی تھے کہ دوسری طرف ہماری ایک پیر کی ایڑی میں زور سے درد کا احساس ہوا تو پاس رکھی کٌرسی کو پکڑکر اس پر بیٹھنے لگے اور ہمارے اپنے اندر سے ہی ایک آواز آئی کہہ“ محترمہ اپنی پاکستانی فلمی اداکارہ انجمن کی کھیتوں میں لگائی چھلانگوں سے آج تک وہاں کی زمین بنجر پڑی ہے، وہ جس کے خاطر تم نے نسیم حمید کی طرح دوڑ لگائی تھی وہ تو رب کے فضل سے اپنے بچوں کا دفاع اپنے طریقے سے کر کے آرام سے روڈ پر دراز پڑی ہے اور تم اپنا حدود رقبہ جو کہ فردوس عاشق اعوان کے جیسا ہوتا جا رہا ہے چھلانگ مارتے یہ بھی نہیں سوچا کہ دوسری منزل پر رہتی ہو اور نچلی منزل پر معصوم انسان آباد ہیں، خاتوں! ایسی ہی ناگہانی آفتیں ہوتی ہیں جو چھتیں گرکرمعصوموں کو ملبے تلے ڈال دیا کرتی ہیں۔

ہماری گلی پر پلنے والے اس جانورکا کوئی ایک ٹھکانا ہی نہیں کبھی ہمارے گھر کے دروازے پر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھی رہتی تو کبھی ہمارے نزدیک والے گھروں کی دیواروں اورباہرکھڑی گاڑیوں کے سائے کے نیچے نظر آتی۔ ہم اورہماری بھانجی نے کراچی میں آباد ایک جانوروں کے شیلٹر ہوم کی ویب سائیٹ پربھی رابطہ کیا کہ ان کتوں کو آکرلے جاؤ ورنہ حکومت سندھ آج کل ان کو کنٹرول کرنے میں زہر دے کرجا رہی، حکومت سے ملے اس زہر کے چکر میں ہماری گلی محلے اور گھر گھر سے نکلنے والی پالتو بلیاں ضرور فوت ہو رہی ہیں کیوں کہ جنگلی کتے تو یہ زہر کھا کر قیلولہ کرتے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔

اب چوں کہ موسم گرما شروع ہو چکا ہے ہم انسانوں کی طرح ان جانوروں پرندوں کی بھی بھوک اور پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے، ہماری چھوٹی بھانجی پہلے ہی اس گلی کی کٌتیا کے لیے ایک پیالہ نما برتن رکھتی تھی مگربھئی یہاں تو اندھیرنگری چوپٹ راج کوئی خلائی مخلوق ہر بار وہ پیالہ لے جاتی، ہمیں تو انہی شرارتی لڑکوں پر شک ہے جو ہم سے تنگ آ کر ہماری اسی کھڑکی کے سامنے والی دیوار پر کالے رنگ کے اسپرے پینٹ سے بڑا بڑا ”کتا گلی“ لکھ کر بھاگے تھے اب اتنے مہینوں سے جاری اس واردات پرمستقل نظررکھنا ہمارے بس میں نہیں آ رہا تھا پھربڑے بچوں اور ہماری ٹائیگرفورس کی کمیٹی کو بٹھانے کے بعد طے ہوا کہ جب بھی اس کٌتیا کو پانی دیا جائے تو اس کا برتن بھی اس کے پینے کے بعد واپس گھر کے اندر لے آیا جائے۔

افسوس کہ ہمارے شہر میں عام انسانوں تک پینے کا صاف پانی آسانی سے مئیسرہی نہیں باقی جو صاحب استطاعت لوگ ہیں وہ خرید کر گزارا کر رہے اگر پینے کا صاف پانی اورگرمیوں میں اسے ٹھنڈا کر کے پینے کی سہولت موجود ہے تو اس پر نبیﷺ کی دعائے مبارکہ ہے ”اے اللہ میرے دل میں اپنی محبت، میری جان، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ پیاری بنا دے“ یہاں پراللہ عزوجل کی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے زیادہ کرنے کو کہا جس سے پتہ چلا کہ ٹھنڈا پانی بڑی نؑعمت ہے پھررب کی طرف سے ملے اس تحفہ میں سے ضرورت مند انسانوں اوران بے زبان جانوروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا شروع کردیں کیوں کہ یقین کیجئے اس پر اپنے پیارے آقاﷺ نے اجروثواب اور جنت کی بشارتیں سنائی ہیں۔ رب کی تمام نعمتوں کا شکر گزاررہنا نہایت ضروری ہے اور اس کو رب کی مخلوق تک دینے میں نیکی و برکت ہے پاک کلام بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ ”خدا کے بچوں اورابلیس کے بچوں میں فرق اس سے ظاہر ہوتا ہے جو شخص عادتاً نیکی نہیں کرتا اورجو شخص اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا وہ خدا سے نہیں ہے۔

پروردگار قرآن پاک میں فرماتا ہے فبای آلاء ربکما تکزبان کہ ”اے انسانو اور جنات! اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے۔ پانی پلانے کا یہ عمل بہ ظاہر نہایت معمولی معلوم ہوتا لیکن انتہائی اہمیت کا حامل ہے اوراس عمل کی ہمت افزائی کی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments